Views: 47
دار العلوم تاج المساجد میں مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ کے سانحہ ارتحال پر تعزیتی جلسہ
کل ۱۴/اپریل ۲۰۲۳ء بروز جمعہ بعد نماز عشاء و تراویح دار العلوم تاج المساجد بھوپال میں حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی کی تعزیت میں ایک تعزیتی جلسہ امیر دار العلوم مولانا پروفیسر محمد حسان خان صاحب کی صدارت میں منعقد کیا گیا۔
امیر دار العلوم نے اپنے خطاب میں مولانا رابع صاحب کے سانحہ ارتحال کو امت مسلمہ کے لئے ایک ناقابل تلافی خسارہ بتاتے ہوئے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ ہندیہ آج یتیم ہو گئی، حضرت مولانا اپنے صلاحیتوں، خاندانی وقار و بردباری کے ذریعہ امت کے مختلف طبقوں کو بڑی سمجھداری اور صبر آزمائی کے ساتھ ایک ساتھ لے کر چل رہے تھے اور مختلف نازک مواقع پر آپ کی سوجھ بوجھ اور سماحت نے امت کو انتشار سے بچا لیا، امیر دار العلوم نے آپ کے کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے خاص طور سے ندوۃ العلماء، مسلم پرسنل لا بورڈ، رابطہ ادب اسلامی اور اکسفورڈ کے اسلامی سینٹر کا ذکر کیااور ان اداروں میں آپ کی کبھی نہ فراموش کی جانے والی خدمات کی تفصیل بیان کی، اخیر میں آپ نے حضرت مولانا کے لئے مغفرت و درجات کی بلندی، پسماندگان کے لئے صبر جمیل اور امت مسلمہ کو اور خاص طور سے ندوۃ العلماء کو آپ کا نعم البدل ملنے اور اس خلاء کو پر کرنے کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا فرمائی۔
دار العلوم تاج المساجد کے نائب مہتمم مولانا ڈاکٹر اطہر حبیب ندوی صاحب نے مجلس کو خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا کی وفات کو امت مسلمہ کے لئے کبھی نہ تلافی ہونے والا نقصان بتاتے ہوئے زندگی اور موت کی حکمت پر روشنی ڈالی، آپ نے فرمایا حضرت مولانا مرحوم کی زندگی ہمارے لئے ایک نمونہ ہے کہ ایک شخص طویل عمر میں وفات پاتا ہے لیکن پوری امت اس طرح صدمہ کا شکار ہوتی ہے جیسے کوئی جوان اس دنیا سے رخصت ہوا ہو، آپ نے حضرت مولانا کی دار العلوم ندوۃ العلماء میں طویل خدمات کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مستقبل کا مؤرخ دار العلوم ندوۃ العلماء و تحریک ندوۃ العلماء کی تاریخ لکھتے وقت حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی کے باب کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
دار العلوم تاج المساجد کے سینئر استاذ حضرت مولانا سید شرافت علی ندوی نے اپنے خطاب میں فرمایا اللہ تبارک و تعالی کی ایسی حکمت رہی کہ حضرت مولانا مرحوم کو حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی سے سیکھنے اور ساتھ رہنے کا سب سے زیادہ موقع ملا، آپ نے اپنے خطاب کے دوران حضرت مولانا کے اس دور کا ذکر کیا جس میں وہ دار العلوم ندوۃ العلماء میں ایک طالب علم تھے اور حضرت مولانا مرحوم جوان اور فعال اساتذہ میں تھے اور طلباء میں عربی زبان و ادب کی روح پھونک رہے تھے، آپ نے اپنے خطاب کے دوران بڑے حسرت اور ملال سے فرمایا کہ مولانا کی وفات کے ساتھ اب میرا دنیا میں کوئی استاذ موجود نہیں رہا۔
اس موقع پر دار العلوم تاج المساجد کے ممبر شوری مولانا ڈاکٹر عارف جنید ندوی نے حضرت مولانا مرحوم سے اپنے دیرینہ تعلقات کا اظہار کیا اور ادب اسلامی کے تعلق سے ان کی کاوشوں کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا کہ حضرت مولانا مرحوم نصاب تعلیم کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتے اور اس سلسلہ میں خادم سے ان کی لمبی لمبی گفتگوئیں ہوتیں، اللہ تبارک و تعالیٰ ہم لوگوں کو ان کے منصوبوں کو بروئے کار لانے اور آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
جلسہ کا آغاز قاری اسلم ندوی کی تلاوت اور اختتام صدر مجلس کی دعا سے ہوا، اس جلسہ میں دار العلوم تاج المساجد کے ممبران شوریٰ، اساتذہ، ندوی فضلاء و عمائدین شہر کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔