Visits: 25

سلطان شاہ جہاں بیگم

سلطان شاہ جہاں بیگم

سلطان شاہ جہاں بیگم(۳۰/جولائی ۱۸۳۸ء تا ۱۶/جون ۱۹۰۱ء) ریاست بھوپال کی دسویں حکمران اور تیسری بیگم بھوپال تھیں،مرکزی ہندوستان کی نوابی شاہی ریاست بھوپال کی تقریباً ۵۷ سال تک حکمران رہیں جس میں ۳۲

پیدائش اور ابتدائی حالات

شاہ جہاں بیگم کی پیدائش بروز پیر ۶ جمادی الاولی ۱۲۵۴ھ مطابق ۳۰/جولائی ۱۸۳۸ء کو قلعہ اسلام نگربھوپال میں ہوئی، اس وقت ان کے والد نواب جہانگیر محمد خان بہادر نواب بھوپال یعنی حاکم ریاست بھوپال تھے، شاہ جہاں بیگم کی ہر قسم کی تربیت ان کی والدہ نواب سکندر بیگم نے خود کی قدرت کی جانب سے غیر معمولی ذہانت، استقلال و قابلیت اور بیدار مغزی کا حصہ انہیں ودیعت ہوا تھا ، نواب سکندر بیگم نے تربیت خانہ داری کی تعلیم اپنے ذمہ رکھی جبکہ کتابی اور دینی تعلیم کے لیے اس زمانہ کے ممتاز علماء کو مقرر کیا علاوہ ازیں شہہ سواری اور نشانہ بازی کی مشقیں بھی کروائی جاتی تھیں، شاہ جہاں بیگم نے خداداد صلاحیت وذہانت، جودتِ طبع اور شوق ودلچسپی میں یہ تمام مراحل بہت جلد طے کر لیے۔۔

تخت نشینی

۹/دسمبر ۱۸۴۴ء کو شاہ جہاں بیگم کے والد اور نواب بھوپال نواب جہانگیر محمد خان بہادر کا انتقال ہوا تو قاعدہ تخت نشینی کے تحت شاہ جہاں بیگم نواب بھوپال مقرر ہوئیں اس وقت شاہ جہاں بیگم کی عمر محض ۶ سال تھی ان کی والدہ نواب سکندر بیگم کو بحیثیتِ نائب السلطنت مقرر کر دیا گیا، نواب سکندر بیگم دسمبر ۱۸۴۴ء سے ۳۰/اکتوبر ۱۸۶۸ء تک بیگم بھوپال کے عہدے پر فائز رہیں ۳۰

ازدواج واولاد

جب شاہ جہاں بیگم سن شعور کو پہنچیں تو ان کی شادی کے لیے بہت تلاش وجستجو اور غور وخوض کے بعد بخشی باقی محمد خان نصرت جنگ سپہ سالار ریاست بھوپال کا انتخاب کر لیا گیا جن میں موروثی وذاتی طور پر رئیس وریاست بھوپال کی وفاداری کے اعلیٰ جوہر موجود تھے یہ شادی ۲۶/جولائی ۱۸۵۵ء کو طے پائی اس وقت شاہ جہاں بیگم کی عمر ۱۷ سال تھی جمعہ ۹/جولائی ۱۸۵۸ء کو شاہ جہاں بیگم کے ہاں سلطان کیخسرو جہاں بیگم (سلطان جہاں)بھوپال کی پیدائش ہوئی، ۲۶/نومبر ۱۸۶۰ءکو نواب سلیمان جہاں بیگم کی پیدائش ہوئی جو محض ۵ سال کی عمر میں ۸/جون ۱۸۶۵ء کو فوت ہوگئیں، ۲۶/جولائی ۱۸۶۷ء کو شوہر باقی محمد خان نصرت جنگ بہادر نے بھی اس دار فانی کو خیر باد کہہ دیا۔

باقاعدہ تخت نشینی

۲۶/جولائی ۱۸۵۵ء کو شادی کے بعد شاہ جہاں بیگم کو یہ اختیار حاصل ہو گیا تھا کہ وہ اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لے سکیں لیکن شاہ جہاں بیگم نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی والدہ نواب سکندر جہاں بیگم کو ہی بحیثیتِ بیگم بھوپال عہدے پر بر قرار رکھا اور خود خوشی خوشی استحقاقِ حکومت سے دستبردار رہیں پھر نواب سکندر جہاں بیگم کے انتقال کے بعد آپ بحیثیتِ نواب بھوپال وبیگم بھوپال ۱۶/نومبر ۱۸۶۸ء کو ایوانِ موتی محل میں نواب شاہ جہاں بیگم کے نام سے تخت نشیں ہوئیں۔۔

نکاحِ ثانی

شاہ جہاں بیگم کا عقدِ اول باقی محمد خان نصرت جنگ بہادر سے ہوا تھا جو ۱۸۶۷ء میں وفات پا گئے تھےلیکن امورِ حکمرانی چلانے کے لئے ایک قابل اعتماد مشیر اور مددگار کی ضرورت تھی ایسا مشیر یا مددگار شوہر ہی ہو سکتا ہے، لہذا مدار المہام ریاست بھوپال مولوی جمال الدین اور ریاستی وزراء کے مشورہ پر نواب صدیق حسن خان کا انتخاب کیا گیا اور ۸/مئی ۱۸۷۱ء یہ نکاح ہوا اور آپ کا رتبہ بھوپال کے نوابوں کے مماثل مانا جانے لگا۔۔

اصلاحات

شاہ جہاں بیگم اپنی ولی عہدی کے زمانہ میں اگرچہ ریاست بھوپال کے مختلف امور ہائے حکومت کو انجام دیا کرتی تھیں جو انہیں نواب سکندر بیگم کی جانب سے تفویض ہوتے تھے، جب نواب سکندر جہاں بیگم حج کے لیے گئیں تو قائم مقام کونسلر ریاست بھوپال کے انتظام کے لیے مقرر کی گئی جس میں شاہ جہاں بیگم مستقل صدر تھیں، ۱۸۶۸ء میں جب وہ باقاعدہ حکمران مقرر ہوئیں تو ہر ملکی وسیاسی کام کا تجربہ رکھتی تھیں اور تمام جزوی وکلی امور ہائے ریاست کا انہیں علم تھا فطرتاً بیدار مغز اور عادتاً جفاکش محنتی تھیں ، علمی قابلیت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اور نواب سکندر جہاں بیگم کے ہمراہ مختلف سفروں میں ساتھ رہا کرتی تھیں اسی لیے سیاسی شخصیات سے میل ملاقات کے مواقع بھر پور رہتے تھے، نواب سکندر جہاں بیگم کے اواخر زمانہ ٔ حکومت میں جو امور ہائے ریاست ادھورے رہ گئے تھے انہیں شاہ جہاں بیگم نے انجام دیا جدید اصلاحات کیں، ہر ضلع کے متعدد بار دورے کیے، بہت سے ٹیکس معاف کر دئیے، قوانین ریاست کو جدید طرز پر منضبط کیا، قوانین کی اصلاح کی گئی، وضع قوانین کے لیے ایک مستقل محکمہ بنام تنظیماتِ شاہجہانی قائم کیا، عدالتی اختیارات کی تقسیم کی گئ، امن و حفاظتِ عامہ سے متعلق وسیع پیمانے پر انتظامات کیے گئے، حفظانِ صحت پر خاص توجہ دی گئی، ہر تحصیل میں ایک سرکاری طبیب مقرر کر دیا گیا، حسبِ ضرورت طبی شفاء خانے قائم کیے گئے، شہر بھوپال میں ایک عام شفاء خانہ اور خواتین کے لیے ایک مخصوص شفاء خانہ قائم کیا گیا، زچہ و بچہ کی حفاظت ونگرانی کا خاص انتظام کیا گیا، چیچک کے ٹیکہ کا باقاعدہ انتظام ہوا اور ترغیبِ عامہ کے باعث جو بچوں کو ٹیکہ لگوائیں ان کو ریاست کی جانب سے انعام دینے کا اعلان کیا گیا، رعایا کے اطمینان کی خاطر اپنی نواسی بلقیس جہاں بیگم کو سب سے پہلے چیچک سے بچاؤکا ٹیکہ لگوایا، سیہور میں جذامیوں کے لیے شفاء خانہ تعمیر کروایا ، مدرسہ سلیمانیہ جو نواب سلیمان جہاں بیگم کی یاد میں تعمیر ہوا تھا اس کو ترقی دی اور ہائی اسکول کے بعد یونیورسٹی سے الحاق کروایا، والد کے نام پر مدرسہ جہانگیریہ قائم کیا جس میں صرف قرآن مجید کی تعلیم خاص تھی، بلقیس جہاں بیگم کی یاد میں لاوارث اور یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم کے لیے مدرسہ بلقیسیہ قائم کیا۔

دینی خدمات

امورِ مذہبی کا ایک جدید محکمہ قائم کیا گیا کئی لاکھ روپے صرف کر کے شہر کی اکثر مساجد کو پختہ کروایا تمام ریاست میں ہر ایک مسجد میں امام، مؤذن اور جاروب کش مقرر کیے گئے جو نمازِ بنجگانہ کے اہتمام کے ذمہ دار تھے مساجد میں روشنی اور جائے نمازوں کا اور سردی کے موسم میں گرم پانی کرنے کے لئے ہر مسجد میں لکڑی فراہم کیے جانے کا انتظام کیا گیا، شہر کی تمام مساجد کی نگرانی کے لیے ایک محکمہ بنام مہتمم مساجد قائم کیا اور ضروری عملے کا تقرر کیا گیا نواب سکندر بیگم کے عہدِ حکومت میں جو امدادی وظائف حرمین شریفین کے غرباء کو بھجوائے جاتے تھے اس میں توسیع کی اور اس کے انتظام کے لئے ایک مستقل محکمہ قائم کر دیا گیا اور ہر سال ایک قافلہ سرکاری خرچ پر حج پر جانے لگا۔۔

دینی کتب کی اشاعت

شاہ جہاں بیگم علم کی قدر شناس تھیں، علمی کاموں میں ایسی فراخدلی دکھائی کہ تمام بیگمات بھوپال کو پیچھے چھوڑ دیا ، ایک محکمہ بنام مطبع شاہجہانی قائم کیا گیا جس میں قرآن مجید کی طباعت کی جاتی تھی اور یہ قرآن مجید عوام میں بلا ہدیہ تقسیم کیے جاتے تھے ،نیل الاوطار، فتح البیان، تفسیر ابن کثیر، روضۃ الندیۃ ، نزل الابرار، جلاء العینین اور فتح الباری شرح صحیح البخاری جیسی نایاب ونادر کتب کو شائع کروایا اور اس میں زرِ کثیر صرف کیا، فتح الباری پہلی مرتبہ مطبع شاہجہانی سے ہی شائع ہوئی تھی، آپ سائنٹفک سوسائٹی علیگڑھ کی سرپرست بھی تھیں۔

تعمیرات

شاہ جہاں بیگم ریاست بھوپال کی ان حکمراں بیگمات میں سے ایک ہیں جنہوں نے فن تعمیر کو بھی عروج پر پہنچا دیاآپ کی تعمیر کا سب سے بڑا شاہکار بھوپال میں موجود ایشیا کی سب سے بڑی مسجد تاج المساجد ہے، لندن کی شاہ جہانی مسجد بھی آپ نے تعمیر کرائی یہ مسجد انگلستان میں پہلی باضابطہ عبادت گاہ تھی جو نواب شاہ جہاں بیگم کے اخراجات سے تعمیر ہوئی، آپ کی تعمیرات میں ایک تعمیر بھوپال کا تاج محل بھی ہے جو آپ کی رہائش گاہ بھی تھی۔۔

تصانیف

شاہ جہاں بیگم مصنفہ بھی تھیں مشہور تصانیف میں تہذیب النسواں، خزینۃ اللغات ہیں، شاعری بھی کیا کرتی تھیں جس میں تاجور اور شیریں تخلص تھے، فارسی زبان میں شعر کہا کرتی تھیں مثنوی صدق البیان، تاج الکلا اور دیوانِ شیریں ان کی یادگار ہیں۔

وفات

اواخر ماہِ اکتوبر ۱۹۰۰ء میں شاہ جہاں بیگم کو مرض سرطان (کینسر) لاحق ہوا جو بائیں رخسار کے اندر نمودار ہوا اس مرض میں گیارہ مہینے مبتلا رہیں بروز اتوار ۲۸صفر ۱۳۱۹ھ مطابق ۱۶/جون ۱۹۰۱ء کو ۶۲ سال کی عمر میں انتقال کر گئیں دوپہر چار بجے باغ نشاط افزاء میں تدفین کی گئی۔