Visits: 16

تکمیل مسجد

سن۱۹۰۱ ء میں شاجہاںبیگم کےانتقال کےبعدتعمیری کام موقوف ہوگیا۔ سلطان جہاں بیگم جو شاجہاں بیگم کی بیٹی تھیں اور ان کے بعد جانشین بھی ہوئیں ،ان کے عہد حکومت میں تاج المساجد کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع نہیں ہو سکا، نواب حمید اللہ خاں کے زمانے میں اس سلسلہ میں کچھ فکریں کی گئیں لیکن وہ بھی بروئے کار نہ آسکیں اس طرح یہ عظیم بلڈنگ تقریبا آدھی صدی سے بھی اوپر ادھوری تعمیر کی حالت میں بدلتے ہوئے موسموں اور حالات کا شکار ہوتی رہی۔

ریاست کے انضمام کے بعد جب تاج المساجد دار العلوم کی تحویل میں آئی تو پھر اس ادھوری تعمیر کردہ بلڈنگ کی قسمت جاگی ۔

تاج المساجد کے حصول کے بعد سے ہی مولانا محمد عمران خاں ندوی ازہری کو اس کی تکمیل کی فکر سوار ہو گئی تھی، مولانا نے پچاسوں بار فرمایا کہ ان کی نیت تو مکمل تعمیر کی ہے لیکن کامیابی خدا کی مرضی پر منحصر ہے۔

 

قیامِ دارالعلوم سے لے کرتاج المساجد کی تکمیلی مہم کا حال

مولانا عمران خاں نے جب سے تاج المساجد کی دیکھ بھال اور نگرانی اپنے ذمہ لی اسی وقت سے قدیم منصوبہ کو پیشِ نظر رکھا اور بعض حالات کی وجہ سے جب مسجد کے باہر موقوفہ زمینوں اور عمارتوں کو تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال نہ کر سکے تو اس وسیع وکشادہ مسجد کی محرابی گیلریوں اور دالانوں میں اس طرح تعمیر، اصلاح اور ترمیم کرتے رہے کہ ایک طرف اس عظیم الشان قابلِ فخر اسلامی یادگار کی خوبصورتی متاثر نہ ہو اور دوسری طرف وہ علمی ودینی ادارہ دار العلوم تاج المساجد کے لئے تمام ضروری عمارتوں کا کام دیتی رہے، مزید برآں اجتماع کے لئے حاضرین کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں حاصل ہوں۔

وہ تمام تعمیری کام جو ۱۹۷۱ ء کی باقاعدہ تعمیرسے پہلے انجام پائے

حوض

یہ حوض ۵۰ × ۵۰ مربع فٹ ہے اوراس کے چاروں طرف ساڑھے سات فٹ کاپختہ چبوتراہے،حوض کی گہرائی ۴فٹ تک ہے ۔ ہزاروں کے مصارف اورسینکڑوں مخلص مسلمانوں کی لوجہ اللہ تعالی مزدوری سے ایک مہینہ سے کمترمدت میں ۱۹۵۱ ء کے آخری دنوں میں تیسرے اجتماع سے عین قبل یہ حوض مکمل ہوگیا

حوض کے وسط میں ایک بلوری فوّارہ نصب کردیاگیاہے جس سے اس کی رونق دوبالا ہو گئی اس حوض کے لئے شاہجہاں بیگم نے بلورکی اینٹیں منگوائی تھیں ،لیکن ان کے انتقال اورکام بندہوجانے کی وجہ سے وہ تمام سامان چوری ہوگیا، اس لئے یہ حوض عام اینٹوں سے تعمیرہوا،اور اب وہ فوّارہ بھی نہ رہا ۔

سنگین مصلّے

صحن کا۷۵فیصد حصہ گہرے گڑھوں پرمشتمل تھا،نواب حمید اللہ خاں صاحب کے عہد کی بھرتی کے باوجود آدھے سے زیادہ صحن باقی تھا ۔ دارالعلوم قائم ہونے کے بعد گڑھوں کوبھراگیا ،پھراس میں سنگین مصلّے نصب کئے گئے،تقریبًا آدھا صحن تکمیلی مہم سے پہلے تیار ہو چکاتھا ۔

تشکیل کمرہ جات

مسجدکے طویل صحن کو۱۲فٹ چوڑی محراب دارگیلری شمال و مشرق کی طرف سے گھیرے ہوئی تھی، جنوب میں گیلری نا مکمل تھی، ان تما م تعمیرشدہ گیلریوں کوکمروں کی شکل میں تبدیل کردیاگیاہے،اس سلسلۂ تعمیر میں ۵۶۲۰فٹ دیواروں کی چنائی ہوئی ۔ ۸۵بڑی چوکھٹیں اوردروازے لگائے گئے،۱۱۶کھڑکیاں نصب ہوئیں اور ۱۰۰روشندان بنائے گئے ، ۴۱ کتبے نصب کیے گئے،اس کے بعد سے یہ تعمیرشدہ کمرے دارالعلوم کے مختلف کاموں میں استعمال ہوتے رہے ہیں جیسے، مہمان خانہ ،دفترِ دارالعلوم،دارالطعام ،دارالاقامہ و بورڈنگ ہاؤس جس میں تقریبًا ۲۲۰لڑکے رہ سکتے ہیں ،کتب خانہ اور مسجد کے ساز و سامان کا اسٹور ۔

تکمیلِ فرش

مسجد کے بالائی عظیم الشان ہال میں اورمشرقی دالان میں اورشمال مغربی دالان میں کہیں فرش مکمل نہ تھا،اورکہیں بالکل نہ تھا،اس کی تکمیل کی گئی ،جس کی مجموعی لمبائی ۲۰۰فٹ اورعرض ۱۲فٹ ہے۔

زینے

مسجد میں آمد ورفت کے لئے صرف تین دروں کے سامنے تین زینے تھے،لیکن اب تمام دروں کے سامنے مسلسل زینے قائم کردیئے گئے ،نیز مسجد کے شمال وجنوب میں زنانہ مسجد اوراس کے صحن میں آمدورفت کے لئے بھی زینے بنادیے گئے

غسل خانے اوراستنجاخانے

جنوبی سمت میں مسجد سے متصل زنانہ مسجد کے لئے پانچ استنجا خانے اورغسل خانے بنائے گئے اورمسجد کے اسی رخ میں بیرونی استعمال یعنی دارالاقامہ وغیرہ کے لئے چار غسل خانے اور پانچ استنجاخانے بنوائے گئے

مبطخ

دارالعلوم کے ساتھ چونکہ دارالاقامہ بھی ہے اورمقیم طلبہ کی تعدادخاصی رہتی ہے،اس لئے ضرورت تھی کہ ان کے کھانے اورناشتے کے انتظام کے لئے باورچی خانہ ہو،چنانچہ جنوبی سمت میں بیرونِ مسجد ۲باورچی خانے بنادیئے گئے تھے

مینارِ مسجد

اس ناتمام مسجد کے نامکمل مینارے بھی اونچے نیچے تھے،اس سلسلہ میں شمالی مینارہ کوتقریبًا ۴۰فٹ بلند کرکے جنوبی مینارے کے متوازی کیاگیا ۔ میناروں کی بلندی ۲۲۸ فٹ اور قطر۲۵فٹ ہے ۔

مسجد کی چھتیں

مسجد کی تعمیر ۱۹۰۱ء سے بند تھی اور جس کی تعمیر وتکمیل نہ ہو سکی ہو اس کی چھتیں کہاں کہاں سے نہ ٹپکتی ہوں گی اور بارش کا پانی اس کے در و دیوار میں کس طرح جذب ہو رہا ہوگا اس کی تفصیل یہاں بیان کرنا مشکل ہے ، اس مشکل پر کسی حد تک قابو پانے کی کوشش کی گئی تھی اس طرح کہ کہیں چھتیں ڈالی گئیں کہیں درازیں بند کی گئیں اور کہیں پلاسٹر کروادیا گیا۔

صحنِ مسجد

مسجد کا صحن ناہموار، غیر مسطح اور ناقابلِ استعمال تھا، سینکڑوں ٹرک ملبہ حاصل ہونے اور سینکڑوں مخلصین کی محنتوں کے بعد وہ بڑی حد تک قابو میں آیا۔

برقی روشنی

اس عریض ووسیع مسجد میں بجلی کی فٹنگ بھی آسان کام نہ تھا لیکن خدا کے فضل وکرم سے وہ کام بھی بڑی حد تک مسجد کے اندرونی رقبے ، صحنِ مسجد، نو تعمیر کمروں (جن میں اسٹور، دفتر، دار الطعام، دار الاقامے، کتب خانہ وغیرہ ہیں) اور مسجد کے بازو والے زنانہ مسجد کے حصوں میں مکمل ہو گیا غرضیکہ اتنے بڑے علاقے میں مجموعی طور پر تقریباً ۳۰۰۰ فٹ بجلی کی لائن ہے۔

پانی کا انتظام

پہلے تاج المساجد میں نل کی شاخ صرف بیرونی کھلے غسل خانے والے حوض اور ایک آہنی ٹنکی تک تھی یہ ٹنکی جنوبی سمت میں دالان سے ملحق رکھی ہوئی تھی نیز نل کی لائن حمیدیہ اسکول والی لائن سے آتی تھی اور ہمیشہ پانی کی کمی رہتی تھی اب خدا کے فضل وکرم سے مزید چوڑی لائن کا بلا شرکتِ غیرے اصل لائن سے کنکشن حاصل ہو چکا ہے اور بڑی حد تک ضرورت کے مطابق پانی مہیا ہے اس سلسلہ میں تقریباً ۵۲۶ فٹ کا مختلف سائز کا پائپ صرف ہوا ہے۔

یہ سب کام۱۹۶۰ء تک انجام پائے تھے ۔

:سن ۱۹۷۱ء سے قبل جبکہ باقاعدہ تکمیلی مہم شروع ہوئی کچھ اور کام اس طرح ہوئے

شمالی رخ میں زنانہ مسجد کے ایک طویل دالان کافرش مکمل کروایاگیا ۔ *

وسطی محراب کے سامنے سنگِ مرمرکازینہ بنوایاگیا ۔ *

مابقیہ محرابوں کے سامنے سنگین زینے بنوائے گئے ۔ *

صحنِ مسجد میں عارضی سایہ کے لئے آہنی ستون قائم کرکے آہنی جال کھینچاگیا کہ تاکہ اجتماع میں ان پر سایہ کے لئے ٹاٹ وغیرہ لگایا جاسکے *

 

تعمیرِ جدید کی کوششوں کا آغاز

تاج المساجد کو مکمل کرنے کی حسرت اور آرزو مولانا کے دل میں روز اول سے ہی چٹکیاں لیتی رہتی تھی لہٰذا جب جب موقع ملا کچھ نہ کچھ تعمیر ہوتی رہی جیسا کہ ابھی گذشتہ سطور میں بیان کیا گیا ہے۔

شمالی دالان کی تعمیر کی تجویز

دس دسمبر ۱۹۶۶ء کے جلسۂ مجلسِ شوریٰ میں منجانب امیرِ دار العلوم تاج المساجدکے شمالی دالان کی تعمیر کے لئے تجویز پیش کی گئی ، تمام امور پر غور کرنے اور مناسب تجاویز مرتب کرنے کے لئے ارکانِ مجلسِ شوریٰ پر مشتمل ایک کمیٹی کی تشکیل منظور کی گئی اور طے کیا گیا کہ یہ کمیٹی معاملات کے تمام پہلؤوں پر غور کر کے اور حسبِ ضرورت ماہرینِ فنِ تعمیر سے مشورہ کر کے خدا کے بھروسہ پر کام شروع کر دے، نیز اجازتِ تعمیر حاصل کرنا اور فراہمیِ سرمایہ کے لئے مناسب نظام بنانا اس کمیٹی کے ذمہ قرار دیا گیا، فی الحال یہ کمیٹی اسی رقم سے کام شروع کر دے جو ایک صاحب خیر نے اسی مقصد سے مختص کر رکھی ہے بقیہ مصارف کے لئے مناسب تدبیریں اختیار کی جائیں اور کمیٹی اپنی کارکردگی کی رپورٹ مجلسِ شوریٰ میں پیش کرتی رہے اس کمیٹی کے ممبران مندرجہ ذیل اصحاب تھے : ”مولانا محمد عمران خاں صاحب، مولانا سید حشمت علی صاحب، عبد الحمید خاں صاحب اوورسیر، مولانا سید منظور حسین صاحب سروش، جناب عبد الرؤوف خاں صاحب، جناب افتخار صاحب“۔

شوریٰ میں شمالی دالان کی بات آچکی تھی، چھت کی خرابی اور اس میں مسلسل اضافہ سخت حیرانی اور پریشانی کا باعث تھا ماہرین خاص طور پر عبد الحمید صاحب اوورسیر جو کہ ممبرِ شوریٰ بھی تھے اور ماہر تعمیر بھی ان کا بھی یہی خیال تھا کہ چھت کی حالت ابتر ہے اس لئے سب سے پہلے اس کی فکر ہونی چاہیے۔

مولانا مرحوم فرماتے ہیں کہ ”اکتوبر ۱۹۶۷ء کی ابتداء میں جب حضرت صاحبؒ نے پہلی بار مجھ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا مولوی صاحب! تاج المساجد کی طرف آپ توجہ کیوں نہیں کرتے؟ تو میں نے عرض کیا کہ میں کیا کر سکتا ہوں؟ جس کام کو والیانِ ریاست نہ کر سکے اس کے کرنے کی ہمت اس زمانہ میں کون کرے اور کیسے کرے؟ فرمایا آدمی ہی ان کاموں کو کرتے ہیں ہمت تو کیجئے ہمت کیوں ہارتے ہیں“؟۔

یہی بات تقریبًا ۱۲/اگست ۱۹۶۹ ء کی شوریٰ میں مولانامرحوم نے تحریرکی ہے:

”تعمیر وتکمیل تاج المساجد بلاشبہ ہمارا مقصد تھا لیکن اپنی بے بضاعتی کی بنا پر ہم آرزو مندی کے ساتھ ساتھ مبتلاء حسرت بھی تھے ، لیکن کچھ اس طرح ہوا کہ سالہا سال کی خاموشی کے بعد حضرت شاہ محمد یعقوب صاحب مجددی مدّ ظلّہ العالی نے کسی سیاق وسباق کے بغیر ارشاد فرمایا کہ ارے مولوی صاحب! یہ تاج المساجد کب تک یونہی پڑی رہے گی؟ اس کی تعمیر کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عجب گومگو کے ساتھ اظہارِ کشمکش کر دیا، کشمکش یہ تھی کہ حضرت صاحب کا ایماء کیسے ٹالا جائے؟ اور دوسری طرف یہ فکر کہ اس مہم کو سر کیسے کیا جائے “؟۔

مولانا مرحوم نے مزید فرمایا: ”تاج المساجد کی فکر مجھ پر ہمہ وقت سوار رہتی تھی اور تعمیرِ مسجد کے نام پر کوئی چندہ نہ دیتا تھا البتہ دار العلوم کے لئے لوگ چندہ دے دیتے تھےکیونکہ دار العلوم کھلے ہوئے ۲۰ برس ہو چکے تھے اور لوگوں کے اس چندہ پر ہی دار العلوم برابر چل رہا تھا لیکن تاج المساجد کے لئے چندہ مانگوں تو لوگ کہتے کہ مولوی صاحب! دنیا کے سارے کام ہو سکتے ہیں لیکن تاج المساجد کی تعمیر نہیں ہو سکتی لہٰذا جو چیز ہو ہی نہیں سکتی اس کی تعمیر کے لئے چندہ دینے سے کیا حاصل؟ دو ،چار، پانچ ہزار سے اس کا کیا ہوگا یہ تو لاکھوں کی طالب ہے“۔

یہی بات جب بھوپال نژاد کینڈا کے باشندے جناب انعام اللہ مکی صاحب کو مولانا مرحوم نے چندے کی اپیل کرتے ہوئے بتائی تو پہلے پہل ان کو یقین ہی نہ ہو سکابے ساختہ ان کے منہ سے یہی نکلا کہ نا ممکن ہے لیکن بمشکل تمام ان کو یقین دلایا جا سکا کہ ایسا ہو رہا ہے آپ خود آکر ملاحظہ فرمائیں۔

”یہ تمام صورتحال حضرت صاحب کو بھی بتائی گئی انہوں نے بڑی توجہ سے ساری باتیں سنیں اور فرمایا کہ ایسا کرو کہ بھوپال اور ہندوستان کو چھوڑو تم تو کہیں باہر چلے جاؤ اور شروع میں لاکھ دو لاکھ چندہ لے آؤ، بھوپال کے لوگ بہت مایوس ہیں، اس کے بعد دیکھو اللہ تعالی کس طرح خزانے کھولتا ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ کئی دنوں سے یہ خیال میرے ذہن میں بھی آرہا ہے کہ باہر چلا جاؤں وہاں واقف کار لوگ بھی ہیں“۔

 

تعمیر تاج المساجد کے تشنہ کام

جب یہ طے ہوا کہ تکمیل مسجد کی مہم کو شروع کرنا ہے تو باقاعدہ پروگرام بنایا گیا اور تعمیری وتکمیلی نقطۂ نظر سے سب سے زیادہ اہم اور مقدم حصے حسبِ ذیل قرار پائے جن کا تخمینہ بھی ذیل میں دیا جا رہا ہے۔

۲ لاکھ تمام چھتوں کاپراناپلاسٹرنکال کر(جوبالکل بیکارہوچکاہے)چونے یاگٹی کا پورا پلاسٹر ڈالا جائے ۔ ۱
۲۰ لاکھ مسجدکے گنبد مکمل کرائے جائیں تاکہ ایک ضروری تکمیل کے ساتھ برساتی پانی کی زد سے مسجد کوبچایاجائے ۔ ۲
۳ لاکھ بالائی حصوں میں بددیانت ٹھیکے داروں نے جو چھت ڈالی ہے گرنے پرہے،اسے تبدیل کرایاجائے ۔ ۳
۳ لاکھ شمالی دالان کابڑاحصہ (۲۲/دروں والا) نامکمل ہے ،اس کوتعمیرکرایاجائے ۔ ۴
۹ لاکھ مشرق میں مسجد کامرکزی عظیم الشان دروازہ جو ۷۰ / سال سے نامکمل ہے اسے مکمل کرایاجائے ۔ ۵
۵۰ ہزار وہ گڑھاجوتقریبًا ۱۰۰ فٹ طویل ۴۰ فٹ عریض اور ۱۵ فٹ عمیق ہے ، وہاں تہہ خانہ بنایا جائے ۔ ۶
۵۰ ہزار اندرونی تعمیرکی تکمیل کے ساتھ ساتھ اس وسیع وعریض مسجد کے پانی کی نکاسی کے لئے بھی راستے قائم کیے جائیں ۔ ۷
۱ لاکھ صحنِ مسجد کوسنگین مصلّوں سے ڈھانک دیاجائے کہ پوراصحن نماز کے لئے سازگار ہو جائے ۸
۳۰ لاکھ مینارہائے مسجد کی تکمیل کی جائے تاکہ ان میناروں سے برساتی پانی بہنابند ہو ۔ ۹
۵ لاکھ شمالی زینہ تالاب تک بنایاجائے ۔ ۱۰
۱ لاکھ متفرقات ۱۱
۷۵ لاکھ مجموعی رقم تقریبًا