Visits: 69

مشاھیر دار العلوم تاج المساجد

امراء دار العلوم

 

امیراول حضرت مولانا محمد عمران خاں ندوی ازہریؒ متوفی۱۸/اکتوبر۱۹۸۶ء

حضرت مولانا محمد عمران خاں ندوی ازہریؒ مؤسس وبانئ دار العلوم تاج المساجد بحیثیت مؤسس اور اس ادارہ کے پہلے امیرہوئے اور عہدۂ امارت پر ۱۹۵۰ء سے یوم وفات تک امیر منتخب ہوتے رہے ۔

تفصیلات کے لئے بانئ دار العلوم کا لنک وزٹ کریں۔

امیر دوم مولانا سید منظور حسین سروشؒ متوفی۲/مئی ۱۹۹۷ء

سیدمنظور حسین صاحب سروش کا خاندان سادات سارنگپور کا ہے، آپ کی پیدائش ۱۹۰۶ء میں دوراہے میں ہوئی جہاں آپ کے والد تبارک حسین صاحب ملازمت کر رہے تھے،ابتدائی تعلیم مدرسہ سلیمانیہ میں ہوئی، وہاں سے مولوی عالم اور فاضل ادب کی ڈگریاں حاصل کیں،بعد میں دفتر حضور (یعنی اکاؤنٹنٹ جنرل کے آفس میں۱۹۲۹ء یا ۱۹۳۰ء میں آپ کا تقرر ہوا۔پھر مختلف محکموں اور مناصب پر سے گزرتے ہوئے آخر میں اوقاف شاہی کے سکریٹری مقرر ہو گئے جس پر ۱۹۷۴ء تک فائز رہے،۱۹۵۹ء میں مولانا نے ان کو شوریٰ کا رکن بنایا، کچھ عرصہ بعد ان کے ذمہ حسابات کی نگرانی کا کام بھی سپرد کر دیا گیا بعد میں مولانا نے ان کو نائب امیر دار العلوم بھی مقرر کر دیا جس پر وہ مولانا کی وفات تک فائز رہے۔

منظور صاحب کی ذہانت، قانونی مہارت اور سب سے بڑھ کر معاملات کی صفائی اور طہارت کی مولانا نے ہمیشہ قدر کی، تاج المساجد کے قانونی اور عدالتی معاملات میں کامیابی اصلا منظور صاحب کی اصابت رائے اور معاملہ فہمی کی مرہون منت ہے، اسی لئے جب تاج المساجد کی تعمیر کا مرحلہ آیا تو مولانا نے ان کو مہتمم تعمیرات مقرر کیا جس کو انہوں نے شبانہ روز کی محنت سے کامیابی سے ہمکنار کیا۔

آپ قانونی واقتصادی امورکے ماہراوربانئ دارالعلوم کے قانونی مشیر تھے لیکن وہ خود مولانا اوران کی علمی ،قانونی وانتظامی صلاحیتوں کے معترف تھے مولانابھی آپ کی قانونی مہارت کے قائل تھے ، وہ اخلاص ومحبت کی بناپرمولاناکے مقرب اورمعتمدخاص بن گئے تھے،اورمولانا کی وفات کے بعداتفاق رائے سے دارالعلوم تاج المساجدکے امیرمنتخب کیئے گئے ،۱۹۸۶ء سے ۱۹۹۵ء تک آپ نے اس چمن کی آبیاری کی تقریبًا تیس سال اس ادارہ کے لئے مخلصانہ ،لوجہ للہ اوربلامعاوضہ خدمات انجام دیں آپ کے مشوروں اورکارگزاریوں سے دارالعلوم نے ترقی کی وہ منزلیں طے کیں جنھیں کبھی بھلایانہیں جاسکتا ۔

امیر سوم مولانا پروفیسر محمد حسان خان صاحب

آپ کی پیدائش ۱۹۵۲ء میں بھوپال میں ہوئی آپ مولانا مرحوم کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں، آپ کی ابتدائی تعلیم دار العلوم تاج المساجد میں ہی ہوئی، ۱۹۶۸ء میں میٹرک پاس کیا، اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے لیبیا کے شہر بنغازی چلے گئے اور وہاں کی اسلامیہ یونیورسٹی سے لیسانس (بی۔اے) کی ڈگری ۱۹۷۲ءمیں حاصل کی پھر بھوپال کی برکت اللہ یونیورسٹی سے ایم۔ اے اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔

آپ نے لیبیا سے فراغت کے بعد دار العلوم تاج المساجد بھوپال میں چار سال ۱۹۷۳ءسے۱۹۷۶ء تک اعزازی تدریسی خدمات انجام دیں۔

سات اپریل ۱۹۸۰ء میں برکت اللہ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی میں لیکچرارمقررہوئے پھر ترقی کےمنازل طے کرتے ہوئے ریڈر، پروفیسر، ہیڈآف دی ڈپارٹمنٹ اورڈین کے عہدوں کو زینت بخشی ،شعبۂ عربی کو اپنی محنت سے بام عروج پر پہنچایا، ۲۰۱۷ء تک ڈین کے عہدے پر رہتے ہوئے ریٹایر ہوئے ۔

آپ نے متعدد ممالک کے سفر کئے ملک وبیرون ملک کی اہم کانفرنسوں میں مسلسل شرکت کی ابھی تک آپ کی اہم موضوعات پر ۱۸ کتابیں منظر عام پر آچکیں ہیں، مختلف کمیٹیوں اور اداروں کے آپ معزز ممبر ہیں، آپ کو عربی زبان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ۲۰۱۵ء میں صدر جمہوریہ ایوارڈ تفویض کیا گیا۔

لیبیا کی تعلیم سے فراغت کے بعد آپ کو لیبیا میں ہی بہت اچھی ملازمت مل رہی تھی کئی اور عمدہ اداروں میں بہترین مواقع آپ کو میسر تھے لیکن آپ بھوپال میں ہی مقیم رہے اور والدین کی خدمت کرنے کو سعادت سمجھتے رہے، اس طرح آپ کو مولانا مرحوم کے ساتھ رہنے اور ان کے کام کرنے کے طریقہ کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا خوب موقع ملا، ۱۹۸۲ء میں آپ کو دار العلوم تاج المساجد کی شوری کا ممبر نامزد کیا گیا، مولانا کی وفات کے بعد جب منظور سروش صاحب امیر دار العلوم منتخب ہوئے تو آپ کو اسی وقت ۱۹۸۶ء میں نائب امیر مقرر کیا گیا اور تقریبا ۹ سال آپ نائب امیر کے عہدہ پر ۱۹۹۵ء تک قائم رہے، ۱۹۹۵ء میں ضعیفی کی وجہ سے منظور سروش صاحب نے استعفی دے دیا جس کے بعد آپ کو امیر دار العلوم مقرر کیا گیا چار سال بعد ۱۹۹۹ء میں کچھ ناخوشگوار وجوہات کی بنا پر آپ نے امارت دار العلوم سے استعفی دے دیا۔

: آپ کی امارت کے چار سالہ دور میں چند اہم مندرجہ ذیل کام ہوئے

سید صاحب کے نام سے موسوم ہال میں لائبریری کی منتقلی، مسجد کی خستہ حال چھت کا انتظام اور مرمت، احاطۂ دار العلوم کی گھیرا بندی، سابق ڈی۔پی۔آئی کی آراضی کا حصول اور دار العلوم کے احاطوں سے مختلف قبضوں کا انخلاء۔

اس کے علاوہ آپ کا چار سالہ دور امارت ممبران شوری کی میٹنگوں اور مجلس امارت کے جلسوں کی کثرت کے لئے بھی مشہور رہا۔

سال ۲۰۲۰ء میں سابق امیر دار العلوم حافظ سراج الحسن صاحب کی وفات کے بعد آپ کو متفقہ طور پر دوسری مرتبہ امیر دار العلوم منتخب کیا گیا ۔ اللہ تعالی آپ کے سایےکو دراز فرمائے اور آپ سے اپنی رضا کے اور مزید کام لے۔

امیر چہارم مولانا محمد سعید صاحب مجددیؒ متوفی ۳۰/ اپریل ۲۰۱۷ء

آپ کا تعلق مشہور خانوادہ مجددیہ سے ہے مشہور زمانہ بزرگ حضرت شاہ محمد یعقوب مجددی صاحبؒ کے آپ دوسرے صاحبزادہ ہیں، آپ ۱۹۳۳ء میں بھوپال میں پیدا ہوئے، کم عمری میں قرآن کریم حفظ کیا، زمانے کے مشہور اساتذہ سے تعلیم حاصل کی، عربی، اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں سے آپ واقف تھے عربی اور اردو میں نثر نگاری کے ساتھ ساتھ نظم پر بھی قدرت رکھتے تھے۔

مولانا مرحومؒ آپ کے استاد تھے، حضرت صاحب ؒ سے ارادت و عقیدت مندی کی وجہ سے مولانا مرحومؒ آپ کا بہت اکرام کرتے تھے، میاں محترم کو بھی مولانا مرحومؒ سے بہت محبت وعقیدت تھی، آپ کی اتوار کی روحانی مجلسوں میں اکثر مولانا مرحومؒ کا تذکرہ آتا تھا، اکثر مولانا نے باصرار آپ سے تاج المساجد میں عیدین کی نمازیں پڑھوائی ، لمبے عرصہ تک وہاں تراویح بھی پڑھوائی ، اکتوبر ۱۹۶۱ء میں مجلس شوری کے ممبر بنائے گئے ، تاج المساجد کی کئی نمائشوں کا آپ کے ذریعہ افتتاح کرایا گیا۔

سال ۱۹۹۹ء میں آپ دار العلوم کے امیر مقرر ہوئے آپ نے دار العلوم کی امارت سنبھال کر امت کے اس اہم قومی ادارے کی بد نیتوں اور دشمنوں سے نہ صرف حفاظت کی بلکہ اس کے کام کو ترقی کی راہ پر آگے بھی بڑھایا، تعلیمی ترقی کے ساتھ ساتھ آپ کے دور امارت میں مختلف تعمیری کام بھی سر انجام دئیے گئےجس میں مطبخ سے ملحق ایک بڑی بلڈنگ غلہ اسٹور کرنے کی غرض سے تعمیر کی گئی ،میناروں کے بر آمدوں کی اصلاح اور مرمت کی گئی اسی طرح احاطہ کے شمال مغربی میدان میں ایک زبردست جدید اندا ز کی دار الاقامہ کی تعمیر کا آغاز کیا گیا جس کا سنگ بنیاد آپ کے دست اقدس سے رکھا گیا(تفصیل کے لئے تاریخ کا لنک وزٹ کریں)۔۔

اپریل ۲۰۱۷ء میں۸۳ سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد آپ کی وفات ہوئی۔

امیر پنجم حافظ محمدسراج الحسن صاحب مجددی متوفی ۲/ ستمبر ۲۰۲۰ء

آپ کا تعلق بھی خانوادہ مجددیہ سے ہے آپ حضرت شاہ محمدیعقوب مجددی صاحبؒ کےفرزند اور سعید میاں محترم کے چھوٹے بھائی تھےآپ۱۹۴۰ء میں بھوپال میں پیدا ہوئے ،کم عمری میں قرآن کریم حفظ کیا،آپ صاحب فہم وفراست تھے،امت کے ملی وسماجی مسائل پر بڑی نگاہ تھی ، آپ حکمت وموعظت حسنہ کے ساتھ دعوت الی اللہ اور طریقۂ اصلاح کےقائل تھے، امت کے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے ہمیشہ فکرمند رہتے اور اس سلسلہ میں برابر مشورہ دیتے اور مسلک ومذہب کی پرواہ کیے بغیر ہر اصلاحی کوشش میں برابر شرکت کرتے تھے ۔

مئی ۲۰۱۷ء میں آپ دار العلوم تاج المساجد کی مجلس شوری کے ممبر منتخب ہوئے پھر ۲۳ جولائی ۲۰۱۷ء کو مجلس شوری نے آپ کو امیر منتخب کیا۔

آپ نےاپنے مختصر سے دور امارت میں تعلیمی وتعمیری کاموں کو آگے بڑھایااور دار العلوم کے تحفظ واستحکام میں اہم ذریعہ ثابت ہوئے۔

ستمبر ۲۰۲۰ء میں آپ کی وفات ہوئی ، خاندانی قبرستان واقع لال پریڈ گراونڈ میں سپرد خاک ہوئے۔

معتمد تعلیمات مولانا حبیب ریحان خاں ندوی ازہری متوفی ۸/ اگست ۲۰۰۹ء

آپ مولانا محمد عمران خاں صاحب مرحوم کے بڑے صاحبزادہ تھے، ۱۳/اگست ۱۹۳۶ء میں بھوپال میں پیدا ہوئے، ابتداء سے درجۂ تکمیل تک تعلیم دار العلوم ندوۃ العلماء میں حاصل کی جہاں اس وقت آپ کے والد ماجد مہتمم تھے، ۱۹۵۱ء میں آپ نے دار العلوم ندوۃ العلماء سے عالمیت کی سند حاصل کی پھر ۱۹۵۳ء میں فضیلت اور ۱۹۵۵ء میں درجۂ تکمیل سے فراغت حاصل کی،آپ بچپن سے ہی ذہین اور حوصلہ مند تھے، تعلیم کے ہر مرحلے میں فائق اور نمایاں رہے، آپ کی فکر پر ندوی تحریک کا بڑا اثر تھا، جو فکر و خیال اور تحریر و تقریر میں آخری عمر تک نظر آتا رہا۔

ندوۃ العلماء سے فراغت کے بعد بھوپال واپس آ گئےاور تاج المساجد کا ترجمان رسالہ “نشان منزل” کی ادارت کا کام بحسن وخوبی انجام دیا ساتھ ہی دار العلوم تاج المساجد میں اعزازی طور سے تدریسی فرائض بھی انجام دئیے، پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے ۱۹۵۸ء میں مصر گئے جہاں جامعہ ازہر سے تخصص فی الدعوۃ والارشاد (ایم۔ اے) اور تخصص فی التدریس (ایم۔ ایڈ) کی ڈگریاں حاصل کیں پھر قاہرہ یونیورسٹی سے عربی ادب میں لیسانس (بی۔ اے آنرس)اور جدید عربی ادب میں (پی۔جی۔ ڈپلومہ) کیا۔

اعلی تعلیم سے فراغت کے بعد لیبیا کے شہر البیضاء میں۱۹۶۳ء سے۱۹۸۷ء تک جامعہ الامام محمد بن علی سنوسی میں اسلامی علوم اور عربی زبان وادب کے استاد کی حیثیت سے قریب ۲۵ سال تک تدریسی خدمات انجام دیں ۔

اپریل ۱۹۷۶ء میں دار العلوم تاج المساجد کی مجلس شوریٰ کے ممبر منتخب کئے گئے، ۱۹۸۷ء میں وطن واپس آنے کے بعد دار العلوم تاج المساجد میں معتمد تعلیمات کا عہدہ سنبھالا اور آخر حیات تک ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ،۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۴ء تک قائم مقام امیر دار العلوم بھی رہے۔

طالب علمی کے زمانہ سے ہی اردو و عربی زبان میں مضمون نگاری کا شوق ہوا ، نشان منزل کی ادارت نے اس میں اور نکھار پیدا کر دیا، ندوہ میں قیام اور حضرت مولانا مرحوم کے بیٹے ہونے کی وجہ سے ہندوستان کے تمام مشہور علماء اور اہل قلم کی محبتیں بھی ان کو حاصل ہوتی رہیں ذہن اخاذ ہونے اور مطالعہ کے بے پایاں شوق نے آپ کے علم کو نئی فکری بلندیاں عطا کیں ، آپ کی تحریر ہو یا تقریر جرأت وبے باکی اور علمی شان سے خالی نہیں رہیں ۔

آپ کے قلم سے ۱۱ کتابیں اور قریب ۳۰۰ سے زیادہ مقالات ملک وبیرون ملک کے مختلف رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں ، آپ علمی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں بڑے احترام سے بلائے جاتے کئی اداروں اور کمیٹیوں کے آپ رکن رکین تھے ان میں: بین الاقوامی کلینڈر پروگرام ملیشیا، اسلامی مرکز ڈیوزبری برطانیہ ، پرسنل لا بورڈ ،کل ہند مجلس مشاورت،فقہ اکیڈمی اور مدھیہ پردیش وقف بورڈ وغیرہ۔

سال ۲۰۰۷ء میں عربی زبان و ادب کی خدمت کے اعتراف کے طور پر صدر جمہوریہ ہند نے آپ کو سند اعزاز سے نوازا۔

دار العلوم تاج المساجد کے اساتذہ وطلبہ کے فکری ارتقاء ودار العلوم کے نصاب تعلیم میں اصلاحات کے تعلق سے آپ کا نمایاں کردار رہا۔

اگست ۲۰۰۹ء میں آپ دار فانی سے دار باقی کی طرف کوچ کر گئے۔

نائب مہتممین

مولاناسیدحشمت علی صاحبؒ نائب مہتمم متوفی ۷ جولائی ۱۹۹۴ء

مولانا سید حشمت علی صاحب مظفر نگر میں پیدا ہوئے،والد کا نام سید بشارت علی خاندانی تعلق سادات بارہا سے ہے ان کے نانا مولوی حافظ عبد العزیز صاحب شاجہاں بیگم کے زمانے میں محکمۂ مالیات میں منصرم تھے انہیں کے سایہ میں مولانا نے مدرسہ سلیمانیہ میں تعلیم حاصل کی پھر الہ آباد یونیورسٹی سے مولوی فاضل کی سند بھی حاصل کی آپ کو پیر ابو احمد سے بھی خاص تعلق تھا ۔

مولانادارالعلوم کے سب سے پہلے نائب مہتمم ہوئے اس سے پہلے آپ جامعہ احمدیہ بھوپال کے ممتاز استاذ تھے ۔ جامعہ کے ختم ہونے کے بعدمولانامحمدعمران خاں صاحب کی فکر سے متاثر ہوئے اور جب دار العلوم تاج المساجد کا قیام عمل میں آیا تو آپ مولانا مرحوم سے وابستہ ہوئے اور دار العلوم کی خدمت ایسے اخلاص سے کی جس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔ دار العلوم کا تعلیمی نظام ہو یا تعمیرات ومرمت کا کام ہو آپ سب کے نگراں تھے آپ شب و روز دار العلوم کی خدمت کے لئے وقف ہو گئے آپ کی یہ ساری کوششیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور یہ کہنا بیجا نہیں کہ موسس دار العلوم کے بعد سب سے زیادہ دار العلوم کی خدمت آپ ہی نے کی ہے۔

مولانا محمد نعمان خاں صاحب ندوی ؒ نائب مہتمم متوفی ۸/مئی ۱۹۹۸ء

مولانا محمد نعمان خان صاحب ندوی ۱۹۲۰ء کے آس پاس بھوپال میں پیدا ہوئے،اپنے دونوں بڑے بھائیوںمولانا محمد عمران خاں اور مولانا محمد عرفان صاحب کی طرح ندوۃ العلماء میں تعلیم حاصل کی ، اور ۱۹۳۸ء میں ندوہ سے فراغت پائی۔

کچھ عرصہ تک درجہ تکمیل میں پڑھانے کا تجربہ بھی حاصل کیا، اس کے بعد بھوپال آ گئے اور موضع منی کھیڑی میں اپنے گھر کی زمین سنبھالی،پھر تجارت بھی کی،حضرت سید سلیمان ندوی صاحب کے قیام بھوپال کے زمانے میں ان کی خدمت میں رہے اور ان سے بہت استفادہ کیا ، جب دار العلوم مسجد شکور خاں سے تاج المساجد منتقل ہو اتوان کی شکل میں ایک لائق استاد کی ضرورت پوری ہو گئی ، آپ پانچویں شخص ہیں جن کا تقرر دار العلوم میں ہوا پہلے صرف پانچ گھنٹہ پڑھانے کے لئے بعد میں پورے اوقات کے لئے مدرس بنایا گیا اور یکم فروری ۱۹۵۲ء کو آپ کتب خانہ کے منصرم بھی ہو گئے۔

مولانا محمد نعمان خان صاحب دار العلوم کے لئے غلہ فراہمی کی مہم کی جان تھے اپنی محنت اور ایمانداری سے اس کام کو بہت آگے پہنچا دیا ، چندے کی دیگر مہموں میں بھی آپ نمایاں رہے ۱۹۵۶ء میں آپ کو باقاعدہ دار العلوم کا سفیر مقرر کیاگیا۔

۱۱/اکتوبر ۱۹۷۲ء کو جب مولانا حشمت علی صاحب ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو آپ کو قائم مقام نائب مہتمم بنایا گیا پھر یکم نومبر ۱۹۷۳ء کو آپ مکمل نائب مہتمم ہو گئے ۔ آپ کا خانقاہ مجددیہ اور تبلیغی جماعت سے خصوصی تعلق تھا، دار العلوم تاج المساجد میں جب عالمیت کا درجہ کھلا تو آپ بخاری شریف پڑھانے والے پہلے استاد ہوئے ، مولانا محمد عمران خان کی وفات کے بعد آپ کو ندوۃ العلماء کی مجلس شوریٰ کا رکن بھی بنایا گیا ۔۸/مئی ۱۹۹۸ء کو آپ نے وفات پائی ۔

مولانامحمدسلمان خاں صاحب ندویؒ نائب مہتمم متوفی ۱۷ /مئی ۱۹۹۱ء

آپ مولانامحمد عمران خاں صاحب کے چھوٹے بھائی تھے ۹/جنوری ۱۹۲۸ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے،ابتدائی تعلیم مشہور زمانہ مدرسہ احمدیہ میں ہوئی، پھر خاندانی روایت کے مطابق اعلی تعلیم کے لئے ندوہ چلے گئےلیکن بعض گھریلو مجبوریوں اور والد محترم کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سےان کو جلد ہی واپس گھر آنا پڑا، بعد میں لکھنؤ یونیورسٹی سے عالم کی سند حاصل کی ، والد کے انتقال کے بعدآپ نے ندوہ میں اپنے برادر محترم کے پاس تعلیمی ترقی کے لئے قیام کیا اور ندوہ کے بڑے اساتذہ سے استفادہ کیا۔

سن۱۹۴۳ء میں بھوپال واپس آ گئے اور اپنی خاندانی زمین کی نگرانی کرنےلگے، ساتھ ہی ریاست بھوپال کے دفتر حضور میں تعلیمی وظائف کے شعبہ سے منسلک ہوئے اور قریب ۸ سال تک اس خدمت کو انجام دیا۔

سن ۱۹۴۷ء میں جب تبلیغ کے کام نے عام مقبولیت حاصل کی تو آپ بھی اس محنت میں شامل ہوئے اور حضرت مولانا کے ساتھ اس محنت سے آخر عمر تک وابستہ رہے ۔

تیس جولائی ۱۹۵۲ء کو بھوپال سے جب پہلی جماعت حجاز کےلئے روانہ ہوئی تو آپ ہی اس کے امیر مقرر کئے گئے، یہ سفر آپ کے لئے بہت ہی مفید ثابت ہوا عربی زبان کی مہارت پیدا ہوئی ، تقریر کرنے کا سلیقہ آیا اور خود تبلیغ کے کام کو اور بہتر بنانے کے کئی راستے ان کے سامنے آئے، اسی سفر میں مختلف کانفرنسوں میں بھی شرکت کی شروع میں ترجمہ کے کام میں ضرور دقتیں سامنے آئیں لیکن بہت جلد آپ نے ان پر قابو پا لیا، حضرت مولانایوسف صاحبؒ کے معتمد خاص ہو گئے اور یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے اجتماعات میں اپنی موجودگی میں وہ آپ سے تقریریں کرواتے تھے۔

دار العلوم تاج المساجد میں ۲۰ مئی ۱۹۵۶ء کو آپ کی خدمات اس طرح حاصل کی گئیں کہ آپ دار الاقامہ اور مطبخ کے منتظم بنائے گئے، ۱۹۶۱ء میں ماسٹر عقیل صاحب کے ساتھ غلہ وصولی کا مشکل کام بھی بڑی خوش اسلوبی سے پورا کیا، ۱۹۶۲ء میں حضرت مولانا کے اصرار پر آپ ممبئی میں چندے کے کام کے لئے تشریف لے گئے اور بہت کامیاب رہے۔

سن ۱۹۷۱ء میں جب تاج المساجد کی تکمیل کا تاریخی کام شروع ہوا تو آپ کو نگران تعمیرات مقرر کیا گیااور آپ نے اس ذمہ داری کو جس بے مثال طریقے سے ادا کیا اور گویا اپنی زندگی کا ہر پل اس کے لئے وقف کر دیا وہ ناقابل فراموش ہے۔

بیس مارچ۱۹۷۹ء کو آپ کو دار العلوم کا نائب مہتمم مقرر کر دیا گیا جس پر ۱۹۸۸ء تک برابر کام کرتے رہے۔

آپ کی تعمیری صلاحیتوں کی وجہ سے مسجد شکور خاں کے تعمیری کام بھی آپ کے حوالے کئے گئے حضرت مولانا کے انتقال کے بعد آپ کو مسجد شکور خاں کی کمیٹی کا صدر چنا گیا اور آخر وقت تک آپ اس عہدہ پر فائز رہے۔

سن ۱۹۷۵ء میں جب ندوہ کا ۸۵ سالہ عالمی جشن منعقد ہوا اور حضرت مولانا اس جشن کے انتظامات کے سربراہ ہوئے توان کے معاونین میں مولانا سلمان صاحب پیش پیش رہے۔

رٹائرمنٹ کے بعد آپ اپنے صاحبزادہ مولانا محمد رئیس خاں صاحب ندوی کے گھر پر رہنے لگے ۱۷/مئی ۱۹۹۱ء کو وہاں پر ہی دورۂ قلب کی وجہ سے آپ کی وفات ہوئی۔

اخلاق وکردار میں آپ مجموعۂ فضائل تھے نہایت وضع دار ، متواضع ، مہمان نواز ، فیاض اور ہر شخص کے کام آنے کی ان کی خوبیاں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

مولانا محمد لقمان خاں صاحب ندوی ازہری نائب مہتمم متوفی ۵/جولائی ۲۰۰۲ء

آپ مولانا مرحوم کے سب سے چھوٹے بھائی تھے،۱۹۴۰ء میں بھوپال میں پیدا ہوئے ابھی چھوٹے ہی تھے کہ والد ماجد کا انتقال ہو گیااس لئے آپ کی پوری تعلیم وتربیت مولانا مرحوم کی نگرانی میں ہی ہوئی ، خاندانی روایت کے مطابق آپ نے بھی دار العلوم ندوۃ العلماء میں تعلیم حاصل کی، ۱۹۵۸ء میں عالمیت اور ۱۹۶۰ء میں فضیلت کرنے کے بعد آپ اعلی تعلیم کے لئے مصر چلے گئے جہاں جامعہ ازہر اور قاہرہ یونیورسٹی سے کئیں ڈگریاں حاصل کیں،۱۹۶۳ء میں لیبیا کے شہر البیضاء میں درس وتدریس سے وابستہ ہوئے اور ایک طویل عرصے تک یہ خدمت انجام دی ۱۹۷۶ء میں دار العلوم تاج المساجد کی مجلس شوریٰ کے رکن ہوئے ،۱۹۸۷ء میں جب وطن واپس آئے تو دار العلوم تاج المساجد میں استاد کی حیثیت سے تقرر ہوا ۱۹۸۸ء میں آپ نائب مہتمم ہوئےاور ۱۹۹۷ء تک اسی عہدے پر قائم رہے۔

عربی زبان پر قدرت اور فن تدریس میں مہارت رکھتے تھے، اور خوش مزاجی اور خدمت خلق کے خاندانی جذبہ کی وجہ سے آپ نمایاں تھے ۔

پانچ جولائی ۲۰۰۲ء مسجد شکور خاں میں آپ جمعہ کے دن عین خطبۂ جمعہ دیتے وقت منبر پر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔

حافظ محمد محمود خاں صاحب نائب مہتمم متوفی۱۹/جنوری ۱۹۹۸ء

آپ مولانا نعمان خاں صاحب کے بڑے بیٹے اور حضرت مولانا کے بھتیجے تھے، بھوپال میں ۱۹۴۰ء میں پیدا ہوئےدارالعلوم تاج المساجدسےحفظ کیا،۱۹۶۳ء میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے میٹرک کیا، ۱۹۵۹ء میں دار العلوم کے شعبہ حفظ سے وابستہ ہوئے اور مختلف انتظامی شعبوں کے ذمہ دار ہوتے رہے ساتھ ہی تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا چنانچہ وکرم یونیورسٹی اجین سے آپ گریجویٹ ہوئے، ۱۹۹۷ء میں آپ کو نائب مہتمم بنایا گیا اور اس عہدے پر آپ اپنی وفات تک فائز رہے ۔

سن ۱۹۹۸ء جنوری/۱۹کو عصر کی نماز کے لئے وضو کررہے تھے کہ دورہ ٔقلب کے اچانک پڑنے سے آپ کا انتقال ہوا۔

مولانا اطھر حبیب ریحان ندوی حالیہ نائب مہتمم

جناب محمد جاوید میاں صاحب کنجے بھائی ۱۵/جولائی ۲۰۲۳ء

آپ ۱۴ اگست ۱۹۵۹ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے، آپ کے والد عبد المجید صاحب عرف کنجے بھائی بھوپال کی مشہور ومعروف شخصیت تھے۔

آپ شروع ہی سے اپنے والد کے کاروبار سے منسلک رہے اور اپنی محنت، لگن ،ایمانداری ،اخلاق اور اعلیٰ ظرفی سے اس میں چار چاند لگا دئیے ، آپ کا شمار نہ صرف بھوپال اور مدھیہ پردیش بلکہ ہندوستان کے بڑے تاجروں میں ہوتا ہے ۔

عنفوان شباب سے ہی دعوت وتبلیغ کی محنت سے جڑے رہےاور بھوپال اجتماع کے نظم ونسق اور انتظامات میں آپ کا کلیدی رول رہتا ہے، ہندوستان کے اکابر ،بزرگوں اور علماء ِ دین سے نیاز مندی کی سعادت حاصل ہے، بہت سارے دینی اداروں اور مساجد کی کمیٹیوں کے ممبر ہیں۔

سن ۲۰۰۰ء میں آپ کو دار العلوم تاج المساجد کی مجلس شوریٰ کا ممبر منتخب کیا گیا، بانیٔ دار العلوم حضرت مولانا محمد عمران خان ندوی ازہری و سابق معتمد تعلیمات مولانا حبیب ریحان خان ندوی ازہری سے آپ کا خصوصی تعلق رہا ، دار العلوم تاج المساجد کے سابق امیر حضرت مولانا محمد سعید میاں مجددی وحافظ محمد سراج الحسن صاحب مجددی کے آپ معتمد خاص رہے، ۲۰۱۷ء میں آپ کو دار العلوم تاج المساجد کا مہتمم انتظامیہ مقرر کیا گیا آپ دار العلوم تاج المساجد کی تعمیر وتحسین نیز اوقاف تاج المساجد کے نظم ونسق اور دار العلوم کے ذرائع آمدنی بڑھانے کے کاموں میں جی جان سے مصروفِ عمل ہیں۔

(ابتداء تا حال) ممبران

مجلس شوریٰ دار العلوم تاج المساجد، بھوپال

 

اسماء ممبران گرامی

عہدہ ونسبت 

مولانا محمد شعیب صاحب قاضی بھوپال
مولانا عبد القیوم پھلتی خانوادہ ولی اللہ سے متعلق
مولانا عبد الھادی خاں صاحب مفتی بھوپال
مولانا عبد الرشید مسکین صاحب سابق امیر تبلیغ
حاجی احمد عبد اللہ صاحب امراؤتی
مولوی سعید الدین قریشی (بڑے سعید میاں) تبلیغی جماعت کے ذمہ دار
جناب عبد الحمید صاحب اوورسیر مولانا مرحوم کے خاص الخاص
مولانا محمد احمد صاحب رضوی تبلیغ اور دار العلوم کے خاص ساتھی
جناب عبد الصمد صاحب جیلر
جناب محمد حیدر صاحب بریلی
جناب مقبول حسین صاحب وکیل بیگم گنج
جناب غضنفر علی خاں صاحب دار العلوم تاج المساجد کی تکمیل کے نگراں
مولانا محمد سلمان خاں صاحب ایڈیٹر “نشان منزل”،”آفتاب جدید”
مولانا محمد عمران خاں صاحب ندوی ازہری امیر تبلیغ ودار العلوم
مولانا سید حشمت علی صاحب نائب مہتمم
جناب میاں محمد قاسم صاحب جاگیردار
جناب عبد المنان صاحب وکیل امراؤتی
سید آفتاب الدین صاحب عرف تبو میاں مولانا کے خاص مرید ، دار العلوم کے سابق استاد
جناب اقبال حسین صاحب بی۔اے۔ایل۔ایل۔بی
جناب سید عبد الجلیل صاحب ایکسپریس بلاک، بمبئی
مولانا عبد الوہاب صاحب بخاری پرنسپل نیو کالج، مدراس
حاجی جعفر ابراہیم بنگلور
حاجی اسماعیل صاحب تاجر مدراس
مولانا ڈاکٹر سید عبد العلی حسنی ناظم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
مولانا اویس صاحب نگرامی ندوی استاد تفسیر دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
مولانا مسعود علی صاحب ندوی شریک ناظم دار المصنفین، اعظم گڑھ
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ناظم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
مولانا حبیب الرحمن اعظمی شیخ الحدیث، مئو، اعظم گڑھ
مولانا عبد السلام قدوائی ندوی استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ/ناظم شعبہ اسلامیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی/شریک ناظم دار المنصنفین، اعظم گڑھ
مولانا مفتی محمد احمد صاحب مئو ،اندور
محمد شفیع صاحب ایم ایل اے ساگر
جناب حفیظ اللہ خاں عرف نواب میاں مولانا کے خاص رفیق کار ومعاون
جناب پروفیسر ڈاکٹر سید رفیع الدین صاحب صدر شعبہ عربی،فارسی و اردو، ناگپور یونیورسٹی
جناب سید منظور حسین صاحب سروش ڈپٹی ایگزیکیٹو آفیسر، میونسپل بورڈ، بھوپال، امیر دار العلوم تاج المساجد
جناب حاجی علاء الدین صاحب ٹی مرچینٹ، بمبئی،ندوہ ،مظاہر العلوم اور دیوبند کے ممبر شوری،تبلیغ کےاہم ممبر، دار العلوم کے بمبئی چندہ کے سرگرم کارکن
جناب افتخار احمد صاحب گلو فیکٹری، بھوپال، مولانا کے صاحب الرأی رفیق
مولانا محمد سعید صاحب مجددی شاہ محمد یعقوب صاحب مجددی کے فرزند، امیر دار العلوم تاج المساجد ، چیئرمین مدھیہ پردیش وقف بورڈ
جناب مظفر محمد خاں عرف مجو میاں سابق مشیر المھام برائے نواب حمید اللہ خاں صاحب
مولانا شاہ معین الدین احمد صاحب ندوی ناظم دار المصنفین، اعظم گڑھ
جناب عبد الرؤوف خاں صاحب متولی کمیٹی انتظامیہ کےروح رواں ، منشی حسین خاں ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کے بانی ، نہایت صائب الرأی شخصیت
مولانا عبد الماجد دریاآبادی مفسر قرآن، مفکر اسلام،صدق جدید وسچ کے ایڈیٹر، مولانا مرحوم کے مشفق ومحب بزرگ و استاد
مولانا ابو السعود صاحب مہتمم دار العلوم سبیل الرشاد، بنگلور
پروفیسر محمد زبیر صدیقی صدر شعبہ عربی، حمیدیہ کالج
محمد شریف صاحب سکریٹری حضور نظام حیدرآباد، اسپیشل آفیسر نظام ٹرسٹ بعد خاتمۂ نظام
نجم الدین شکیب ندوی دار العلوم ندوۃ العلماء کے استاد اور مشہور ادیب
یعقوب صاحب وکیل
جناب صابر قلی خان صاحب نواب محمد گڑھ
جناب ایچ ایم حسین صاحب حیدرآباد
مولانا حبیب ریحان خاں صاحب ندوی ازہری استاد جامعہ محمد بن علی سنوسی اسلامی یونیورسٹی ، لیبیا ، ومعتمد تعلیمات دار العلوم تاج المساجد بھوپال
مولانا محمد لقمان خاں صاحب ندوی ازہری استاد جامعہ محمد بن علی سنوسی اسلامی یونیورسٹی، لیبیا، و نائب مہتمم دار العلوم تاج المساجدبھوپال
مولانا محمد نعمان خاں صاحب ندوی استاد ومہتمم دار العلوم تاج المساجد، بھوپال
مولانا ڈاکٹر مسعود الرحمن خاں صاحب ندوی ازہری پروفیسر شعبۂ مغربی ایشیاء علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ
مولانا محب اللہ صاحب لاری ندوی مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
جناب عبد الحفیظ صاحب منیا گجرات کے ایک بڑے تاجر ، مولانا مرحوم کے بڑے مقرب ومحبوب، صاحب الرأی، تکمیل تاج المساجد کے چندہ کے بڑے معاون
جناب یوسف بیگ صاحب تاجر امراؤتی
عبد الحسیب صاحب امراؤتی
جناب صباح الدین عبد الرحمن صاحب ناظم دار المصنفین، اعظم گڑھ
جناب مولانا پروفیسر ڈاکٹر محمد حسان خان صاحب لیکچرر شعبۂ عربی، برکت اللہ یونیورسٹی، بھوپال، امیر دار العلوم تاج المساجد
مولانا ابوالعرفان صاحب ندوی استاد اور سابق مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
پروفیسر مولوی منظور احمد صاحب صدر شعبۂ عربی، سیفیہ کالج، بھوپال
ڈاکٹر سید علی صاحب حیدرآباد
ڈاکٹر محمد خالد صدیقی صدر شعبۂ فارسی، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ
جناب قمر الدین انصاری تاجر کانپور
پروفیسر اختر علی خاں استاد سیفیہ کالج، صاحبزادہ مجو میاں
پروفیسر عبد الستار خاں صاحب صدر شعبۂ عربی، عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد
مولوی عبد الخالق دار العلوم چھاپی کے ذمہ دار، احمدآباد/بمبئی
مولانا قاضی اطہر مبارکپوری مؤرخ کبیر،مئو، اعظم گڑھ
جناب یٰسین علاء الدین بمبئی، حاجی علاء الدین کے فرزند، دار العلوم کے بڑے معاون
مولانا ضیاء الدین اصلاحی ناظم دار المصنفین، اعظم گڑھ
جناب سید زاھد علی صاحب استاد سیفیہ اسکول، برادر قاضی وجدی الحسینی
ڈاکٹر حسین محمد صاحب ندوی علیگ سپرٹینڈینٹ یونانی فارمسی، مدھیہ پردیش
مولوی مصباح الدین قریشی امیر تبلیغ مدھیہ پردیش، صاحبزادہ بڑے سعید میاں
پروفیسر ضیاء الحسن ندوی صدر شعبۂ عربی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
مولانا محبوب الرحمن ندوی ازہری استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
مولانا محمد رابع حسنی ندوی ناظم دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی ندوی صدر شعبۂ اسلامیات، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ
پروفیسر عبد القوی دسنوی صدر شعبۂ اردو، سیفیہ کالج، بھوپال
پروفیسر احتشام احمد ندوی صدر شعبۂ عربی، کالی کٹ یونیورسٹی، کالی کٹ
مولانا عبد اللہ علاء الدین ندوی صاحبزادہ حاجی علاء الدین صاحب، ومعاون دار العلوم بمبئی
فاروق احمد صاحب بنگلور تبلیغ کے بڑے ذمہ دار
مولاناڈاکٹر عزیز الدین ندوی مہتمم مدرسہ ریاض المدارس، سرونج
جناب محمد میاں صاحبزادہ نواب میاں صاحب
جناب سید محبوب الحسن انجینئر، پڑپوتے نواب صدیق حسن خاں
جاوید میاں، کنجے بھائی ٹینٹ ھاؤس مہتمم انتظامیہ دار العلوم تاج المساجد ، بھوپال
مولانا ابراھیم ندوی بمبئی دار العلوم کے بہت اہم معاون
مولانا شعیب کوٹی مفسر قرآن اور اسلامی اسکالر، بمبئی
جناب محمدانس خاں صاحب حافظ محمد ادریس خاں صاحب کے صاحبزادے
مولوی عبد القدیر صاحب ندوی امراؤتی
پروفیسر ڈاکٹر حبیب الحسن ناگپور
مولانا برھان الدین سنبھلی استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
پروفیسر کفیل احمد قاسمی صدر شعبۂ عربی، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ
مولانا عمیر الصدیق صاحب ندوی مدیر ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ
جناب عارف عزیز صوبہ مدھیہ پردیش اور ہندوستان کے نامور صحافی
مولانا ڈاکٹر عارف جنید ندوی پروفیسر ڈی آئی ای ٹی کالج بھوپال
مولانا عبد العزیز بھٹکلی ندوی نائب مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
مولانا واضح رشید ندوی معتمد تعلیمات، دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری معتمد تعلیمات، دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
جناب ضیاء الدین صاحب علوی بھوپال
جناب وسیم اخترصاحب ،آئی۔ اے۔ایس بھوپال
جناب امین آفتاب صاحب صاحبزادہ جناب تبو میاں صاحب بھوپال
جناب عبد المغنی صاحب بھوپال
جناب عبد القادر صاحب صاحبزادہ جناب حکیم عبدالمقتدر خاں صاحب، بھوپال
جناب محمود شریف صاحب شریف ٹریولس، حیدرآباد
جناب موسیٰ صدیقی صاحب بھوپال
جناب سید شمس الحسن عارف صاحب مالک روزنامہ ندیم، بھوپال
مولانا الیاس بھٹکلی ندوی ڈائرکٹر مولانا ابو الحسن علی ندوی اکیڈمی، بھٹکل
مولانا ڈاکٹر محمد وکیل خاں صاحب ندوی مدھیہ پردیش
جناب اسد افتخار صاحب صاحبزادہ جناب افتخاراحمد صاحب
مولوی عبد الباسط منیار صاحبزادہ جناب عبد الحفیظ صاحب منیار
مولوی سفیان حسان ندوی صاحبزادہ جناب مولانا پروفیسر ڈاکٹر محمد حسان خان ، گیسٹ لیکچرار برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال