Views: 72
بانئ دار العلوم
بانئ دار العلوم مولانا محمد عمران خان ندوی ازہری
خاندان
مولانا محمدعمران خان ندوی نسلا افغانی پٹھان تھے آپ کے پر دادا نور محمد صاحب دہلی میں قرآن پاک کی تعلیم دیتے تھے اور حضرت احمد سعید صاحب مجددی کے متوسلین میں سے تھے۔ خود نور محمد صاحب کے بزرگ سرحد سے دہلی منتقل ہوئے تھے۔
سن ۱۸۵۷ء کے انقلاب میں نورمحمد صاحب اہل وعیال کے ساتھ بھیکن پور پہنچے، وہاں کے نواب نے آپ کا استقبال کیا، کچھ عرصہ بعد آب و دانہ کی کشش دار الاقبال بھوپال کھینچ لائی۔
بھوپال ریاست میں علم و علماء کی بڑی قدر تھی، ان کا استقبال کیا گیا اور بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا، خاص طور پر آپ کے دو معصوم بیٹوں کی کم سنی میں حفظ قرآن اور قرأت و تجوید کی مہارت سےلوگ بہت متاثر ہوئے،بڑے صاحبزادے حافظ قاری محمود صاحب مہتمم مساجد و وظائف ہوئے اور اپنی حق گوئی و حق پرستی میں مشہور ہوئے۔
چھوٹے بیٹے اور مولانا مرحوم کے دادا مفتی عبد الھادی صاحب بڑے جلیل القدر عالم تھے، قرأت و تجوید میں ان کی مہارت مسلم تھی، قاری عبد الرحمن صاحب پانی پتی سے ان کا مباحثہ مشہور ہے جس میں قاری پانی پتی صاحب نے ان کو اپنی سند عطا کی، آپ نے “شاطبیہ” قرأت کی مشہور کتاب کا ترجمہ “ہدایۃ القرّاء” کے نام سے کیا، عربی خطبوں کی تالیف کی جو افسوس ہے زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکی، آپ نے ریاست کے مختلف عہدوں کو رونق بخشی اور ۲۶/اگست ۱۹۱۹ء کو ریاست کے مفتی مقرر ہوئے اور آخر عمر تک اس عہدۂ جلیلہ پر فائز رہے، آخرعمر میں حج کا شوق غالب ہواباوجود ناسازیٔ طبیعت کے ۱۱/اپریل ۱۹۲۹ء کو مکہ معظمہ حج کے لئے روانہ ہوئے اور ۱۰/مئی ۱۹۲۹ء مطابق ۲۹/ذیقعدہ ۱۳۴۷ھ کو وہیں انتقال فرمایا اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓکے پائینتی جنت المعلیٰ میں مدفون ہوئے۔
مولانا مرحوم کے والد ماجد حافظ محمد الیاس خاں صاحب بڑے عالم اور زبردست منتظم و مدبر تھے، آپ ۱/جون ۱۹۲۴ء کو اپنے چچا قاری حافظ محمود صاحب کے انتقال کے بعد مہتمم مساجد و وظائف مقرر ہوئے، نواب حمید اللہ خاں نے ۲۶/اگست ۱۹۳۱ء کو ان کی انتظامی صلاحیتوں کی قدر کرتے ہوئے اوقاف اسلام کا محکمہ بھی ان کے سپرد کر دیا۔
آپ نے اپنے حسن تدبیر اور غیر معمولی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ان محکموں میں زبردست اصلاحات کیں اور نیک نامی کے ساتھ ۱۹۴۰ء میں وظیفہ یاب ہوئے۔
آپ کی وفات ۲/دسمبر ۱۹۴۱ء مطابق ۱۲/ذیقعدہ ۱۳۶۰ھ کولکھنؤ میں ہوئی، وصیت کے مطابق ناظم ندوۃ العلماء ڈاکٹر عبد العلی صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور ڈالی گنج کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔
مولانا مرحوم میں جو بے مثال انتظامی صلاحیتیں سامنے آئیں وہ اپنے والد صاحب مرحوم اور مولانا مسعود علی صاحب مرحوم سابق منیجر دار المصنفین کی تربیت کا ثمرہ ہیں ۔
مولانا مرحوم کے چچا اور خسر حافظ محمد ادریس خاں صاحب اپنے والد مرحوم کے بعد جامع مسجد کے خطیب ہوئےاور اپنے بڑے بھائی حافظ محمد الیاس کے انتقال کے بعد مہتمم مساجد و وظائف و اوقاف اسلام مقرر ہوئے، آپ کی وفات۲۳/دسمبر ۱۹۴۸ء مطابق۲۰/صفر ۱۳۶۸ھ کو ہوئی۔
مولانا کی پیدائش
مولانا محمد عمران خاں صاحب ۱۳/اگست ۱۹۱۳ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے، والد ماجد نے محمد عمران نام رکھا، بچپن ہی میں قرآن کریم حفظ کیا اور ۹/سال کی عمر میں مسجد شکور خاں (مدھیہ پردیش کا دنیا میں مشہور مرکز تبلیغ) میں پہلی محراب سنائی، ابتدائی تعلیم پہلے جہانگیریہ اسکول میں پھر الیگزنڈریہ اسکول میں ہوئی،اعلی دینی تعلیم کے لئے دار العلوم ندوۃ العلماء کا انتخاب ہوا ۔
مولانا مرحوم کا داخلہ ندوۃ العلماء میں یکم جون ۱۹۲۶ء کو ہوا، آپ عربی درجہ دوم میں داخل ہوئے تھے اس دن سے لے کر ۱۹۵۸ء تک ۳۲ سال مسلسل عملی تعلق ندوہ سے رہا۔
آپ نے ندوہ کا بہترین دور پایا، آپ کے زمانے میں نواب حسن علی خاں صاحب خلف نواب صدیق حسن خاں ندوہ کے ناظم ، سید سلیمان ندوی صاحب معتمد تعلیم اور مولانا حیدر حسن خاں صاحب مہتمم تھے۔
ابتداء ہی سےآپ کی علمی وانتظامی قابلیت سامنے آنے لگی تھی، ابھی ندوہ میں ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ آپ نے “الھاتف”نامی قلمی رسالہ نکالا اور ۱۹۳۳ء میں جب فضیلت کے آخری سال میں پہنچے “المنقلب” نام سے ایک اور قلمی رسالہ آپ کی ادارت میں نکلا۔
آپ دو سال تک طلباء کی انجمن کے صدر بھی رہے اور آپ نے طلبہ اور اساتذہ میں بے پناہ مقبولیت حاصل کر لی اور اپنی انتظامی صلاحیتوں کا سب سے اعتراف کرالیا۔
سن ۱۹۳۳ء مطابق ۱۳۵۱ھ میں آپ نے فضیلت کی ڈگری فرسٹ ڈویژن اور فرسٹ پوزیشن سے حاصل کی آپ کی غیر معمولی انتظامی وعلمی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ۶/نومبر ۱۹۳۳ء کو ندوہ کا منصرم بنا دیا گیا، اس وقت آپ کی عمر صرف ۲۰ سال تھی۔
ریاست بھوپال کے “عبیداللہ خاں اسکالر شپ”کے وظیفہ کے ذریعہ آپ مزید اعلی تعلیم کے لئے ۱۶/اکتوبر ۱۹۳۷ء کو قاہرہ (مصر) روانہ ہوئے ، جہاں آپ کو عالم اسلام کی شہرۂ آفاق یونیورسٹی جامعہ ازہر کے تخصص میں داخلہ ملا اور ۱۹۳۹ء میں آپ نے فرسٹ ڈویژن اور فرسٹ پوزیشن سے اس امتحان کو پاس کیا، آپ وہ پہلے ہندوستانی طالب علم ہیں جس نے یہ ڈگری حاصل کی اس سے پہلے ہندوستانی طلبہ کو”عالمیۃ الغرباء” نام کے ایک ڈپلومہ کورس میں داخلہ دیا جاتا تھا ، ایسے میں مولانا کی کامیابی کسی کارنامے سے کم نہ تھی ،مصر کے تمام اخباروں نے یہ خبر مولانا کی تصویر کے ساتھ چھاپی اور تعریفی جملے بھی لکھے ، ہندوستان کے اکثر اخبارات نے اس خبر کو بہت ہی اہتمام سے چھاپا یہاں تک کہ حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ نے “معارف” کے “شذرات” میں اس کامیابی کا شاندار الفاظ میں ذکر کیا ، جب مولانا واپس ہندوستان تشریف لائے تو لکھنؤ، دہلی اور بھوپال میں زبردست خیر مقدم کیا گیا ، بھوپال میں ان کو چند بڑے عہدے پیش کیے گئے لیکن آپ نے ندوۃ العلماء کی خدمت کو ہی ترجیح دی اور آپ ایک نئے عزم ، جوش اور ولولے کے ساتھ پھر سے ندوہ سے وابستہ ہو گئے ۔
مولانا حیدر حسن خاں مہتمم ندوۃ العلماء کو ریاست ٹونک واپس بلائے جانے کے بعد مولانا مرحوم کو یکم فروری ۱۹۴۱ء کو قائم مقام مہتمم مقرر کر دیا گیا ،پھر ۲۶/اپریل ۱۹۴۲ء کو مجلس انتظامی کی قرارداد کے مطابق آپ ندوۃالعلماء کے مہتمم ہوئے اور ۱۹۵۸ء تک اس منصب جلیلہ پر فائز رہے۔
ملک کی تقسیم کے بعد حالات نے کروٹ لی اور خاص طور پر ان ریاستوں کے لئے بڑےمسائل پیدا ہوئے جہاں مسلم حکمراں تھے اور بالخصوص بھوپال ریاست کے لئے جہاں سارے دینی علمی اور اسلامی بلکہ غیر مذاہب کے کام بھی ریاست کے بجٹ سے ہوتے تھے،”جماعۃ ہدایۃ المسلمین” جو کہ مقامی تبلیغی جماعت کا شروع میں نام تھا اور جس کے حضرت مولانا امیر تھے ساتھ ہی مولانا جو علوم دینیہ کو مسلمانوں کے لئے فرض عین سمجھتے تھے اور اس کو رواج دینے کی کوشش کرتے رہتے تھےاور ان کے پیش نظر ایک ایسی تربیت گاہ کا قیام بھی تھا جس میں تعلیم کے ساتھ تبلیغ کی مشق بھی مقصود تھی، یہ سارے مقاصد یکم جون ۱۹۴۹ء کو ریاست کے خاتمے کے بعد پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے تھے اور حکومت کے اس اعلان کے بعد کہ اب جامعہ احمدیہ میں دینی تعلیم نہیں ہوگی بلکہ یہ صرف ایک سیکولر اسکول ہوگا مولانا مرحوم کی بے چینی بڑھ گئی اس وقت علامہ سید سلیمان ندوی بھوپال میں قاضی تھے مولانا مرحوم نے ان سے عرض کیا کہ بدلے حالات میں وہ ایک دینی تعلیمی ادارہ قائم کرنا چاہتے ہیں سید صاحب نے اس خیال پر بڑی خوشی کا اظہار کیا اور جامع مسجد میں ایک جلسہ ہوا جس میں سید صاحب نے گویا اپنی تقریر سے دار العلوم کا افتتاح فرما دیا اور مسجد شکور خاں میں یہ مدرسہ قائم ہو گیا ،۲۰/جولائی ۱۹۵۰ء کو یہ مدرسہ دار العلوم تاج المساجد کی حیثیت سے تاج المساجد میں منتقل ہو گیا، جہاں اس کا پھر باقاعدہ افتتاح ہوااور نام دار العلوم تاج المساجد رکھ دیا گیا، دار العلوم منتقل ہونے کے بعد تھوڑے تھوڑے تعمیری کام ہوتے رہے، ۱۹۶۸ء میں حضرت پیر ننھے میاں نے جو مولانا مرحوم کے شیخ بھی تھےبار بار مسجد کی تعمیر کو مکمل کرنے کاپر زور اصرارشروع کیا جس کی تعمیل میں مولانا کا کینیا کا سفر ہوا اور دو لاکھ روپے وصول ہوئے، اس کے بعد مولانا نے ہندوستان کے اہم اور بڑے شہروں کا دورہ بھی کیا پھر ۱۹۷۶ء میں آپ انگلینڈ اور ۱۹۸۰ء میں امریکہ و کینڈا بھی تشریف لے گئے اور اس زمانے میں ۷۰۔ ۷۵ لاکھ روپے کی خطیر رقم حاصل کر کے تاج المساجد کی تعمیر کے شاہانہ کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا ۔
پوری زندگی مسلسل جدو جہد میں گزارنے کا اثر یہ ہوا کہ صحت روز بروز خراب ہوتی چلی گئی کئیں بیماریوں کا شکار ہوئے انجائنا کی تکلیف بھی تھی لیکن اپنے شیخ کی اس نصیحت پر ہمیشہ عمل جاری رہا کہ مولوی صاحب پلنگ نہ پکڑنا ورنہ وہ تم کو پکڑ لے گا، آخری دن بھی انتقال سے ۲۰ منٹ پہلے دار العلوم اور خود آپ کے ذاتی ڈرائیور عبد الرشید گاڑی لے کر آچکے تھے کہ اچانک دورۂ قلب پڑنے سے آپ کا انتقال بروز ہفتہ بتاریخ ۱۳/صفر المظفر ۱۴۰۷ھ مطابق ۱۸/اکتوبر ۱۹۸۶ء بوقت ساڑھے دس بجے صبح ہوا۔جنازہ رات ۹ بجے مسجد شکور خاں سے روانہ ہوا،نماز جنازہ لال پریڈ پر ادا کی گئی جس میں اندازا ڈیڑھ لاکھ لوگوں نے شرکت کی، پھر حضرت پیر ننھے میاں کے ذاتی قبرستان میں ان کے پائنتی سپرد خاک کیا گیا۔
مولانا مرحوم کا داخلہ ندوۃ العلماء میں یکم جون ۱۹۲۶ء کو ہوا، آپ عربی درجہ دوم میں داخل ہوئے تھے اس دن سے لے کر ۱۹۵۸ء تک ۳۲ سال مسلسل عملی تعلق ندوہ سے رہا۔
آپ نے ندوہ کا بہترین دور پایا، آپ کے زمانے میں نواب حسن علی خاں صاحب خلف نواب صدیق حسن خاں ندوہ کے ناظم ، سید سلیمان ندوی صاحب معتمد تعلیم اور مولانا حیدر حسن خاں صاحب مہتمم تھے۔
زندگی کے اہم کام
مولانا مرحوم کی مصروف ترین زندگی کی ایک جھلک اوپر آ گئی تفصیل کے لئے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے لیکن یہاں اختصار سے چند باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
ندوہ
ندوہ سے عشق اور اس کے لئے ہر قیمتی شئے کی قربانی ، آپ نے علامہ سید سلیمان ندویؒ سے ساری عمر ندوہ کی خدمت کا جو وعدہ کیا اس کو مدت العمر نبھاتے رہے ، آپ تحریک ندوہ کے علمبردارتھے اور علامہ شبلی کے افکار سے پوری طرح متفق تھے، ۱۹۴۷ء کے پر آشوب دور میں ندوہ کی کشتی کو صحیح سلامت ساحل سے ہمکنار کرنے میں مولانا مرحوم کی کوششوں کا بڑا دخل ہے ۔
جب آپ لکھنؤ سے بھوپال منتقل ہوئے تو اکثر حضرات کو اس فیصلے سے تکلیف ہوئی لیکن مشیت الہی میں جو خیر پوشیدہ تھا وہ اس طرح ظاہر ہوا کہ مولانا کی وجہ سے وسطِ ہند میں ایک عظیم دینی تعلیمی مرکز مستحکم ہو گیا گویا وسطِ ہند میں آپ نے ایک اور ندوہ قائم کر دیا اور اس طرح آپ تحریکِ ندوہ سے حقیقتا کبھی الگ ہی نہیں ہوئے دار العلوم تاج المساجد کے لئے ان کی خدمات کی تفصیلات ہماری ویب سائٹ کے تاریخ نامی لنک میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔۔
تاج المساجد کی تعمیر
تاج المساجد ہندوستان ہی نہیں دنیا کی سب سے بڑی مسجدوں میں سے ایک ہے جو ناگزیر حالات کی وجہ سے تشنۂ تکمیل تھی اور اس کی تکمیل اور تشدید کا بظاہر کوئی امکان نہیں تھا کہ اس کے لئے ہمت اور دولت اور وقت سب کی غیر معمولی ضرورت تھی لیکن جس طریقہ سے حضرت مولانا نے اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا اس کے لئے اختصار بھی ناممکن ہے، مزید تفصیلات دیکھنے کے لئے ہمارے ویب سائٹ کا تاریخ نامی لنک وزٹ کیا جائے۔
دعوت وتبلیغ
آج سارے عالم میں تبلیغی محنت کی برکتیں تعارف کی محتاج نہیں ہیں لیکن یہ کم ہی لوگوں کو معلوم ہیں کہ ایک محدود علاقے سے اس محنت کو پورے وسطِ ہند میں عام کرنے کا کام مولانا کی محنت کانتیجہ ہے بلکہ یہ کہنا بھی مبالغہ نہ ہوگا کہ بھوپال سے ہی یہ دعوت عالمی نقشے پر نمودار ہوئی ، حضرت مولانا کا تعلق بانئ جماعت حضرت مولانا الیاس ؒ سے خاص تھا مولانا محمد یوسف ؒ آپ کے قریبی رفیق تھے جماعت کے دیگر بزرگوں سے حضرت مولانا کا خصوصی تعلق قائم رہا ۔
مولانا کی علمی صلاحیت
عموما آپ کے ذکر میں عملی کارناموں کا حصہ غالب رہتا ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ مولانا کا مزاج خالص علمی تھا اور آپ کی تحریروں میں تحقیقی اور ادبی اسلوب بڑی آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے، طالب علمی کے زمانے میں قلم سے رشتے کا تعلق اوپر گزر چکا ہے صاحب طرز انشاء پرداز عبد الماجد دریابادی کی توجہ آپ کی جانب آپ کے طالب علمی کے ایک مضمون کے ذریعہ ہی ہوئی ۔
یہ ضرور ہے کہ مولانا مرحوم نے اپنی مصروفیات کی وجہ سے کم لکھا ہے لیکن جو لکھا وہ ادبی اور علمی لحاظ سے بلند تر معیار کا حامل ہے ، الندوہ اور دیگر رسائل واخبارات میں آپ کے مضامین چھپے ، دار العلوم تاج المساجد کا ترجمان جریدہ “نشان منزل”میں آپ کی تحریریں وتقریریں کثرت سے چھپی ان سب کو ویب سائٹ پر لایا جائے گا، آپ کا مضامین کا ایک مجموعہ ۱۹۹۱ء میں شائع ہو چکا ہے ،اسی طرح آپ کے مکاتیب کی چار جلدیں بھی شائع ہو چکیں ہیں جو پورے ایک عہد کی تاریخ کی مصداق ہیں ، یہ بات ضرور قابل ذکر ہے کہ آپ کے مضامین کی زبان اتنی سادہ اور بے تکلف ہے جو قاری کے دل و دماغ پر اثر ڈالتی ہے آپ کی تحریروں کو جمع کرنا اور شائع کرنا یہ بھی ایک ضروری کام ہے اللہ تعالی کی مدد سے ان شاء اللہ یہ کام بھی پایۂ تکمیل تک پہنچے گا ۔