Views: 162
تاریخ دار العلوم تاج المساجد
اشاریہ
- ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کی اہمیت
- تحریک ندوۃ العلماء
- بھوپال
- ریاست کا عہدِ شاجہانی
- عہد شاہجہانی کی تعمیرات
- تاج المساجد کی جگہ پر عیدگاہ
- شاہجہاں بیگم کے عہد میں تعمیری انتظامات
- نواب حمید اللہ خاں کی دلچسپی
- تکمیل مسجد
- تعمیرِ جدید کی کوششوں کا آغاز
- قدیم ڈی پی آئی کی جگہ کا حصول
- تاسیس دار العلوم تاج المساجد اور مولانا محمد عمران خاں صاحب
- اہم کانفرنسیں
- دار العلوم کی تعلیمی خدمات
- تبلیغ واجتماع
ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کی اہمیت
اسلام اور عربی زبان کا چولی دامن کا ساتھ ہےیہی وہ زبان ہےجس میں قرآن کریم، سنت مطہرہ اور ان کی تشریح ودیگر اسلامی علوم کا ذخیرہ موجود ہے، علامہ ابن تیمیہؒ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ”عربی زبان کا تعلق دین ومذہب سے ہے، دین کو جاننا اور کتاب وسنت کو سمجھنا فرض ہے اورعربی زبان کے بغیر ان کو صحیح طور سے سمجھا نہیں جاسکتا، اس لئے جو چیز فرض ادا کرنے کے لئے ضروری ہو وہ بھی واجب کے درجہ میں ہوتی ہے اور فرض کفایہ تو بہرحال ہے ہی“۔
جب اسلام اس دور دراز علاقہ میں داخل ہوا تو پہلے ہی روز سے ہندوستانی مسلمانوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا تھا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عربی زبان کی اسی طرح حفاظت کی جس طرح کہ وہ اپنی جان ومال کی حفاظت کرتے تھے خصوصا علماء کرام نے عربی زبان کو سیکھا اس میں مہارت حاصل کی اس کے اسرار ورموز کو سمجھا، باوجود اس کے کہ یہ زبان ہندوستان میں مادری زبان کی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔
انیسویں صدی عیسوی میں جب حکومت کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئی تو سب سے بڑا مسئلہ جو ان کو در پیش ہوا وہ دین کی حفاظت وبقاء کا مسئلہ تھا اس سلسلہ میں دین کی حفاظت وبقاء کے لئے ایک راستہ ان کو سمجھ میں آیا کہ ملک کے طول وعرض میں دینی مدارس کا جال بچھا دیا جائے تاکہ نوجوان نسل دینی تعلیم اور اصولوں سے واقف رہے، اس سلسلہ میں علماء نے بے لوث خدمت انجام دی، دینی وعربی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس کے لئے ہر قسم کی قربانی دی اور قربانی دینے کے لئے ہمیشہ کمربستہ رہے۔
طلباء بھی عربی تعلیم کے حصول کی طرف راغب ہوئے جبکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس تعلیم کے حصول کے بعد نہ تو ان کو گورنمنٹ میں ملازمت مل سکے گی اور نہ ہی وہ اس کے ذریعہ خوشحال معاشی زندگی گزار سکیں گے بلکہ اس کے بالمقابل وہ خوب سمجھتے تھے کہ شاید وہ اس تعلیم کے حصول کے بعد ہمیشہ معاشی تنگی کے شکار رہیں گے۔
آج جو ہندوستان کے چپہ چپہ پر دینی مدارس نظر آ رہے ہیں یہی حقیقتا ہندوستان میں اسلام اور عربی زبان کی بقاء کے ضامن ہیں ان مدارس نے مذہبی اور دینی لحاظ سے قابل قدر اور لائق ستائش خدمات انجام دیں اور دے رہے ہیں۔
تحریک ندوۃ العلماء
انیسویں صدی عیسویں کے اواخر میں ملت کے دردمند اور نہایت برگزیدہ وسرکردہ علماء و مفکرین کی قیادت میں ندوۃ العلماء کی تحریک کا آغاز ہوا جس کا ایک عملی اظہار دار العلوم کی شکل میں ظاہر ہوا جس کا اصل مقصد یہ تھا کہ ایسا نصاب تیار کیا جائے جو جدید علوم اور اسلامی وعربی علوم کے درمیان پل کا کام انجام دے اور علماء دین اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں جو خلیج پیدا ہوتی جا رہی ہے اسے پاٹ کر قدیم صالح اور جدید نافع میں ملاپ کا کام دے، اصول ومبادی اور غایات واغراض سے کوئی سمجھوتہ کیے بغیر فروع میں توسیع اور نرمی پیدا کرے۔
سال ۱۸۹۴ء میں ندوۃ العلماء کا ایک اجلاس بلایا گیا جس میں ہندوستان کے ہر طبقہ کے بڑے علماء کرام نے شرکت کی تاکہ مسلمانوں کی حالتِ زار کا جائزہ لیا جائے اور مشنریز ومغربی تہذیب کی یلغار کے نتیجہ میں جو مفاسد اور خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں ان کا سدِ باب کیا جا سکے۔
ندوۃ العلماء کی اصلاحِ نصاب کی مفید تحریک کے کامیاب نتائج ظاہر ہوئے آج مسلمانانِ ہند کی تعلیمی وتہذیبی تاریخ کا ہر طالب علم ان نتائج سے بخوبی واقف ہے اور عرب وعجم کے علماء وفضلاء کے نزدیک ہندوستان اور بیرونِ ہند میں ندوۃ العلماءاور ندوہ تحریک سے متاثر فضلاء وعلماء کی خدمات مشہور ومسلم ہیں۔
وسطِ ہند کا یہ دار العلوم اسی تحریک ندوۃ العلماء کی جدوجہد و کوشش کی یادگار اور دار العلوم ندوہ کی فکر کا علمبردار ہے اس کا نصاب اور نظامِ تربیت اسی نہج پر جاری ہے۔
بھوپال
بھوپال وسطِ ہند کی ایک چھوٹی سی مسلم ریاست تھی جو نواب دوست محمد خاں کے ہاتھوں ۱۷۲۵ء میں قائم ہوئی، نواب صاحب ایک علم دوست، روادار، فیاض اور انصاف پرور انسان تھے رعایا کے ساتھ بلا تفریقِ مذہب وملت معاملہ کرتے تھے ان کے جانشینوں نے بھی ان کے اوصافِ جلیلہ کے ساتھ حکومت کی۔
نواب حمید اللہ خاں کے زمانہ میں ریاستِ بھوپال انڈین یونین میں ضم ہو گئی اس سے قبل اس ریاست میں اسلامی قانون جاری تھا، دار القضاء اوقاف اور دینی مدارس تھے اور تمام وہ خصوصیات پائی جاتی تھیں جو ایک اسلامی ریاست کا طرۂ امتیاز ہوتی ہیں باوجود یہ کہ بھوپال ایک چھوٹی سی ریاست تھی لیکن اپنی گوناگوں علمی، ادبی اور ثقافتی خصوصیات کی وجہ سے عالمی شہرت کی مالک تھی، یہ ریاست ہمیشہ باکمال اساتذہ، شہرۂ آفاق علماء، ماہرینِ فن، صلحاءو اتقیاء اور مرشدین کاملین کا مرکز ومسکن رہی اس کا سینہ علم وعمل کا گنجینہ، اس کی زبان رشد وہدایت کی ترجمان ، اس کی زمین صاحبانِ درس وتدریس کا گہوارہ اور اس کی مسجدیں طالبانِ علومِ نبوت کی پناہ گاہیں تھیں، یہ ریاست تعلیم وتعلم، درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کا ہمشیہ مرکز رہی بیشتر علاقوں سے علماء وماہرینِ فن ترک سکونت کر کے ریاست بھوپال آتے رہے اور اس سرزمین کو سیراب کرتے رہے۔
ریاست کا عہدِ شاجہانی
جس مسجد میں دار العلوم تاج المساجد قائم ہے اس کی بانیہ نواب شاہجہاں بیگم تھیں انہوں نے ۱۶/نومبر ۱۸۶۸ء سے اپنی وفات ۱۶/جون ۱۹۰۱ء تک حکومت کی، وہ ایک بلند حوصلہ خاتون تھیں ان کے عہدِ فرخ فال میں بھوپال نے علمی وعمرانی ہر دو لحاظ سے قابلِ قدر ترقی کی، وضعِ قانون کا محکمہ قائم ہوا، عدالتی اختیارات کی تقسیم ہوئی، امن وحفاظتِ عامہ سے متعلق وسیع انتظامات ہوئے اورحفظانِ صحت پر توجہ دی گئی، انہوں نے تعلیم کی طرف خاص توجہ مبذول کی مدرسہ سلیمانیہ کو ہائی اسکول تک ترقی دی، مدرسہ جہانگیریہ قائم کیا، لاوارث یتیم بچوں کے لئے مدرسہ بلقیسیہ کھولا اور کتابوں کی طباعت کے لئے مطبعِ شاہجہانی قائم کیا۔
اس عہدِ شاہجہانی میں بھوپال کو مولوی جمال الدین خاں صاحب جیسے علم پرور، اولو العزم وزیر اور نواب صدیق حسن خاں بہادر جیسے متبحر عالم نیز کثیر التصانیف رئیس ہی میسر نہ آئے بلکہ اس عہد کے زیادہ تر جید علماء بھوپال ریاست کے پرچم تلے جمع ہو گئے جن میں سے دورِ آخر کا ایک بڑا نام حسین بن محسن انصاری یمنی جیسے امامِ فنِ حدیث اور استاذ الأساتذہ کا ہے سارے ہندوستان نے اس شیخ الحدیث سے استفادہ کیا ہے ۷۲ فنِ حدیث کے بڑے بزرگ علماء نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا اسی طرح نجد کے دو بڑے جید عالم شیخ سعد بن عتیق نجدی اور شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب نجدی کے پر پوتے شیخ اسحق بن عبد الرحمن بن حسن بن شیخ الاسلام نے بھی بھوپال میں حاضر ہو کر ان سے علوم حدیث کا اکتساب کیا۔
سرکار عالیہ نواب شاہجہاں بیگم کے عہد میں ان کی فیاضانہ مدد سے”نیل الأوطار“،”فتح البیان“، ”تفسیر ابن کثیر“،”نزل الأبرار“،”جلاء العین“،”حجۃ اللہ البالغۃ“ اور”فتح الباری“ (شرح صحیح البخاری) جیسی نایاب کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہوئیں۔
عہد شاہجہانی کی تعمیرات
شاہجہاں بیگم تعمیرات کے خاص شوق میں دوسرے امراء سے آگے تھیں ان کا شوق وحوصلہ ان کے ہم نام مغل حکمراں شاہجہاں بادشاہ دہلی سے کسی طرح بھی کم نہ تھابلکہ یوں کہا جائے کہ شاہجہاں بادشاہ کی روح نواب شاہجہاں بیگم کے اندر حلول کر آئی تھی تو غلط نہ ہوگاجو ان کےذریعہ تعمیرات کا سلسلہ قائم رکھے ہوئے تھی۔
نواب شاہجہاں بیگم نے جو عمارتیں بنوائیں ان میں سے کچھ یہ ہیں ”تاج محل“،”عالی منزل“،”بےنظیر“،”گلشن عالم“اور ” نور محل“وغیرہ۔
نواب سلطان جہاں بیگم لکھتی ہیں کہ: ” اگرچہ فرمانروایانِ بھوپال نے بہت مسجدیں تیار کرائیں ہیں لیکن سرکارِ عالیہ کی بنوائی ہوئی مسجدیں زیادہ ہیں“،ان ہی مساجد میں سب سے زیادہ عظیم الشان، وسیع اور بلند مسجد تاج المساجد ہے۔
تاج المساجد کی جگہ پر عیدگاہ
تاج المساجد اور اس کا احاطہ ایسی حقیقت تھی جو سب کو معلوم تھی ، لیکن جب مؤسس دار العلوم مولانا محمد عمران خاں صاحب نے رائل مارکیٹ کے سامنے دار العلوم کی خود کفالتی کے لئے دوکانات کی تعمیر شروع کی تو کسی کے وہم وخیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اس میں کوئی مانع پیش آئے گا لیکن ۱۱/فروری ۱۹۵۸ء منجانب میونسپلٹی ناگہانی نوٹس ملا کہ جو کچھ بنایا ہے توڑ دو ورنہ ۲۴ گھنٹے بعد ہم توڑ کر مصارف وصول کریں گےاس وجہ سے معاملہ نے عدالتی رخ اختیار کیا اور ریکارڈ سامنے آیا تو بالکل ایک نئی حقیقت کا انکشاف ہوا کہ جہاں اب تاج المساجد اور اس کا احاطہ ہے یہاں اس سے پہلے عیدگاہ تھی اور اس رقبہ کے بارے میں فرمانروائے وقت یعنی شاہجہاں بیگم نے علماء وقت سے فتویٰ لیا تھا اور بروئے فتویٰ اس رقبہ کو اراضیِ مسجد وقف تسلیم کر کے یہاں سرکاری عمارتیں بنوانے کا منصوبہ ترک کر دیا تھا۔
ذیل میں شاہجہاں بیگم کا وہ استفتاء نقل کیا جاتا ہے جو انہوں نے قاضی زین العابدین صاحب کو بھیجا تھا:”ہم کو منظور ہے کہ متصلِ پل شاہجہانی ایک بستی آباد کریں اور عیدگاہ کو جو قریبِ پل مذکورہ واقع ہے اٹھا کر دوسری جگہ مقرر کریں اور جس جگہ اب عیدگاہ واقع ہے یہاں مکانات سرکاری تیار کرادیں، لہٰذا آپ کو لکھا جاتا ہے کہ آپ از روئے شرع شریف بحوالہ کتبِ فقہ بہ بیانِ اختلافاتِ مذاہب فتویٰ مفتیٰ بہ لکھیں کہ زمینِ عیدگاہ کا کیا حکم ہے؟ یہ زمین وقف ہے؟ اور اگر وقف کا حکم رکھتی ہے تو یہ خاص مذہبِ حنفی میں ہے یا چاروں مذاہب میں؟ تفصیل اس مسئلہ کی از روئے روایتِ فقہ وحوالہ صحیح وصریح لکھ کر بھیجئے کہ موافق اس کے بمقدمہ تعمیرِ مکان بمقام عیدگاہ مناسب حکم دیا جائے“۔ فقط
((حوالہ نقل حکم سرکاری موسومہ قاضی زین العابدین صاحب، مؤرخہ بستم جمادی الأول ۱۲۸۷ھ ، مشمولہ مثل ۹۶/۱۲۸۶ھ، مد مال دفتر انشاء (پرائیویٹ سکریٹریٹ شاہجہاں بیگم) دربارہ عرضی، دیوان جاؤرائے بمقدمہ تعمیرِ پلِ شاہجہانی ومکان سدابرت وغیرہ و آبادی شاہجہاں آباد، ۱۲۸۷ھ، نقل مرتبہ سنٹرل ریکارد آفس بھوپال، مؤرخہ ۷/جون ۱۹۵۸ء)۔
قاضی زین العابدین صاحب نے اس استفتاء کا جو جواب تحریر کیا ہےوہ بھی پیش خدمت ہے:بخدمت مکرمہ ومعظمہ محترمہ نواب شاہجہاں بیگم صاحبہ والیۂ ریاستِ بھوپال دامت برکاتھم
بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ گذارش ہو کہ پروانہ سرکار مؤرخہ بستم ماہ وسنہ حال کے اس خلاصہ سے آیا ہے کہ زمین ومکان عیدگاہ وقف اور حکمِ مسجد کا رکھتے ہیں اور اس میں بنانا مکان کا جائز ہے یہ نہیں؟ تو تفصیل اس مسئلہ کی از روئے روایت صحیح وصریح کے لکھو، فقط گذارش حال یہ ہے کہ زمین ومکان عیدگاہ کا جو چہار طرف سے محدود اور اس میں محراب بنی ہوں اور اس میں بکثرت نمازِ جماعتِ عید اور استسقاء وغیرہ ہوئی اور ہوتی ہے، حکم دوسری مساجد مثل تعظیم اور احترام اور عدمِ جواز وطی اور بول وبراز اور عدمِ جوازِ تصرف وتملک رکھتی ہے، اور وقف اور مسجد کے حکم میں ہے۔ چنانچہ فتویٰ مطول اور مدلل حکمِ عیدگاہ مذکور نوشتہ حقیر مصدقہ جناب مفتی صاحب اور مولوی عبد اللہ ودیگر علماء کے معطوف عریضہ ہذا ہیں اور اس کے ملاحظہ سے حالِ مفصل مبرہن رائے رزین ہوگا۔ فقط والسلام بالاکرام
مؤرخہ بست وششم ماہ جمادی الأول ۱۲۸۷ھ۔(حوالہ نقل عریضہ منجانب قاضی زین العابدین صاحب، مؤرخہ بستم وششم ماہ جمادی الأول ۱۲۸۷ھ، موسومہ نواب شاہجہاں بیگم صاحبہ (والیۂ ریاستِ بھوپال) مشمولہ مثل ۹۶/۱۲۸۶ھ ، مد مال دفتر انشاء، دربارہ عرضی، دیوانِ جؤرائے بمقدمہ تعمیرِ پل شاہجہانی ومکان سدابرت وغیرہ وآبادیِ شاہجہان آباد، بابت ۱۲۸۷ھ) (نقل مرتبہ سینٹرل ریکارڈ آفس بھوپال، مؤرخہ ۷/جون ۱۹۵۸ء))
مطابق مسجد جامع برہانپور کے ایک مسجد ہماری طرف سے سنگِ سرخ کی شاہجہاں آباد میں بجائے عیدگاہ حال تیار ہوگی، اصل مسجد کے پندرہ چشمے پانچ کول ہیں، اس مسجد کے ۱۱/چشمے اور ۳/کول ہوں گے۔ دو جانب مقصورہ واسطے نماز مستورات کے بنایا جائے گا، اس لئے تم ابھی سے جمع کرنا سنگِ سرخ کا اور تیار کرانا اس کی کہم وغیرہ اشیاء ضروری کا شروع کردو، سقفِ مسجد وغیرہ مطابقِ نمونہ مذکور کے ہوگی، نمونہ مسجد کا نزدیک تمہارے موجود ہے۔
یہ بات ان ریکارڈس کی روشنی میں واضح ہوتی ہے کہ تعمیرِ مسجد کے ابتدائی حکم میں سرکار شاہجہاں بیگم نے مسجدِ جامع کا لفظ استعمال فرمایا ہے، لیکن بروئے معائنۂ ریکارڈ ثابت ہے کہ ۱۳۰۵ھ کے بعد ۱۳۰۶ھ سے تاج المساجد کا نام استعمال ہونے لگا تھا۔ اس بات کو پیشِ نظر رکھنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ لینڈ ریکارڈس کے قدیم خسروں میں جمعہ مسجد کا جو نام درج ہے تو یہ اندراج ۱۳۰۵ھ مطابق ۱۸۸۷ء کا ہے اور سنگِ بنیاد رکھتے وقت حکم میں جو نام ہے اس نام سے خسرہ میں اندراج ہے۔ نقلِ حکمِ نواب شاہجہاں بیگم صاحبہ بابت سال تمام ۱۳۰۴ھ مندرجہ کتاب خلاصہ جات ۱۵/مقدمات مال دفتر انشاء، موسومہ مہتمم تعمیرات ریاست۔
خلاصہ عرضی مہتمم تعمیرات معروضہ ۲۱/صفر ۱۳۰۴ھ درخواست صدورِ حکمِ تحریری در باب تیاری فصیل جو ہر دو دروازہ نو تعمیرسڑک پل شاہجہانی سے تا باغیچہ عبد الحمید خاں مرحوم حسب الحکم زبانی سرکار تعمیر ہوتی ہے۔ (نقل مرتبہ سنٹرل ریکارڈ آفس بھوپال، مؤرخہ ۱۰/جون ۱۹۵۸ء))
حکم ہوا کہ : یہ عرضی نزدیک محمد اسحاق خاں مہتمم تعمیرات ریاست کی جاوے کہ فصیل مندرجہ تیار کرا کر حسبِ سرشتۂ صرفہ تعمیر فصیل مذکور مجرالو، مؤرخہ ۲۴/صفر ۱۳۰۴ھ۔
قلمی منشی شمس الدین (زبانی میر منشی صاحب)۔ نقل حکم نواب شاہجہاں بیگم صاحبہ بابت سال تمام ۱۳۰۵ھ مندرجہ کتاب خلاصہ جات مقدمات نمبر ۷، دفتر انشاء موسومہ مہتمم تعمیراتِ ریاست۔۲۷/محرم ۱۳۰۵ھ باصدارِ حکم تحریری در باب تعمیرِ مسجدِ جدید واقع پلِ شاہجہانی (نقل مرتبہ سنٹرل ریکارڈ آفس بھوپال، مؤرخہ ۱۰/جون ۱۹۵۸ء)
حکم ہوا کہ: یہ عرضی نزدیک مہتمم تعمیراتِ ریاست کی جاوے کہ مطابق حکم کے کارِ تعمیر مسجد جامع واقع پلِ شاہجہانی جاری کر دو۔ فقط ۔مؤرخہ ۲۸/محرم ۱۳۰۵ھ مطابق ۱۸۸۷ء، بقلم عبد الرشید
شاہجہاں بیگم کے عہد میں تعمیری انتظامات
تاج المساجد بیگم صاحبہ کی رہائش گاہ تاج محل کے جنوب میں واقع ہے، محل اور مسجد کے درمیان آج جو تالاب نظر آتا ہے یہ دراصل مسجد کا حوض ہے جو نمازیوں کے وضو کرنے کے لئے بنایا گیا تھا، مسجد کے شمالی دروازہ سے تالاب تک وسیع سیڑھیاں تعمیر کی جا رہی تھیں تکمیل ہو جانے کی صورت میں تقریباً دس ہزار آدمی بیک وقت وضو کر سکتے تھے اگر سیڑھیوں کی یہ نامکمل قطاریں مکمل ہو جاتیں تو واقعی ایک عجیب دل افروز منظر سامنے آتا، تالاب کے مغربی کنارہ پر بے نظیر کی عمارت قائم ہے جس میں اس دور کا سکریٹریٹ تھا۔
مشرقی سمت میں لال دروازہ سے تاج المساجد تک پختہ سڑک پھیلی ہوئی ہے یہ سڑک دراصل تالاب کے لئے ایک مضبوط بندھ کا کام بھی دیتی ہے اور تالاب کا فاضل پانی اس کے نیچے سے گزر کر منشی حسین خان کے تالاب میں چلا جاتا ہے جس کی سطح نیچی ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس چابکدستی اور قابلیت کے ساتھ محل اور مسجد کو باقی رکھنے کے لئے پلاننگ کی گئی تھی۔
تاج المساجد کی کرسی مغربی سڑک سے ساڑھے تین فٹ بلند ہے، مشرقی سمت ۶ء۳ فٹ اور شمال مشرقی گوشہ سے اس کی بلندی آٹھ فٹ ہے، بلندی کی سطح میں یہ عظیم فرق فنِ تعمیر کے نقطۂ نگاہ سے اتنی خوبی اور مہارت کے ساتھ رکھا گیا ہے کہ ایک ماہر تعمیرات کی نگاہیں حیران رہ جاتی ہیں، برسات کے زمانہ میں مسجد اور اس کے اطراف کے پانی کے نکاس کے لئے مسجد کی عظیم کرسی کے شمال مشرق میں ایک سرنگ جیسی بنادی گئی ہے، اس سرنگ پر خوبصورت راستہ بنا دیا گیا ہے تاکہ مسجد میں داخل ہونے کے بجائے لوگ اس کے ذریعہ تالاب تک وضو کے لئے پہنچ جائیں۔
کاریگر
شاہجہاں بیگم کی فنِ تعمیر میں دلچسپی، فیض بخشی وقدردانی کی وجہ سے دہلی، آگرہ، جے پور اور دوسرے مقامات سے ان ماہر کاریگروں کی اولادیں جنہوں نے تاج محل، جامع مسجد دہلی، لال قلعہ، دیوانِ خاص اور دیوانِ عام تعمیر کیے تھے سمٹ کر بھوپال آگئیں اور یہاں ان کو اپنے فنِ تعمیر کے جوہر دکھانے کا موقع مل گیا۔
آگرہ کا تاج محل جس طرح شیرازی نامی ماہر تعمیرات کے دست شاہکار آفریں کا مرہونِ منت ہے اسی طرح بھوپال کی خوش بختی سے اللہ دلائے نامی مشہور اور اپنے دور کا تجربہ کار ماہر تعمیر مل گیا، بھوپال کے تمام محلات، محکمات اور مساجد پر اسی کے فنِ تعمیر کی چھاپ ہے۔
پتھر
تاج المساجد کی تعمیر میں جو پتھر استعمال کیا گیا ہے وہ سرخ ریتیلا پتھر ہے جس پر نقش ونگار بھی آسانی سے بن سکتے ہیں اور جن کے تختہ بھی کاٹے جا سکتے ہیں اس میں بھوپال اور آگرہ کا پتھر استعمال کیا گیا ہے بارہ دریاں سنگِ مرمر کی ہیں، ستون اور جالیوں پر نہایت نفیس نقش ونگار ہیں جن کو سعودی سفیر دیکھ کر حیرت میں پڑ گئے تھے اور ان کو یقین ہی نہیں آتا تھا کہ اتنے اچھے نقش ونگار ہاتھ سے بھی بنائے جا سکتے ہیں، مسجد کے اندر کتبے سنگِ مرمر پر سنگِ موسی سے پچہ کاری کر کے تیار کیے گئے ہیں۔
اخراجات
تاج المساجد کی تعمیر خالص مذہبی جذبہ کے تحت عمل میں آئی تھی، شاہجہاں بیگم اسے ایشیاء کا ایک نادر تعمیری شاہکار بنانا چاہتی تھیں اس سلسلہ میں ان کے خزانہ کا منہ ہر وقت کھلا رہتا تھا، انہوں نے کبھی تعمیرِ مسجد کے سلسلہ میں اخراجات کی پرواہ نہیں کی، ایک اندازہ کے مطابق اس پر ۱۵۔۱۶ لاکھ روپیے سے زائد خرچ ہوئے انجینئروں اور ماہرین کے مطابق جو آج کے ۷۰ کروڑ روپے کے برابر ہیں۔
تعمیر کے لاوارث پڑے رہنے سے نقصانات
تاج المساجد میں جو پتھر استعمال ہوا ہے اس کے بارے میں ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ اگر اس قسم کے پتھر پر صحیح طریقہ پر پالش نہ کی گئی ہو تو دھوپ اور بارش کے اثرات سے پچاس سال کے بعد رنگ اڑنے لگتا ہے اس دور میں چونکہ سیمنٹ کا رواج نہ تھا اس وجہ سے فنِ تعمیر میں چونا استعمال کیا جاتا تھا اور جو مسالہ تیار کیا جاتا تھا اس میں چونا، پسی ہوئی اینٹ، گڑ، بیل کا مغز اور اڑد کی دال ہوتی تھی اور یہی مسالہ تاج المساجد میں بھی استعمال کیا گیاحالانکہ تاج المساجد میں چونے کا استعمال بہت اہتمام سے کیا گیا تھا لیکن شاہجہاں بیگم کی وفات کے بعد کام اچانک بند ہو جانے کی وجہ سے پانی، سردی اور گرمی سے بچت کا انتظام نہیں ہو پایا تھا، اس لئے پیہم بارشوں نے چونے کو پتھر کی درازوں سے بہا دیا، وہ بہا ہوا چونا پتھروں کی سطح پر جمتا رہا اور موسمی حالات سے اثر پذیر ہو کر یعنی کبھی مرطوب ہو کر اور کبھی خشک ہو کر اپنی کیمیاوی تیزی کی وجہ سے پتھر کی سطح منتشر کرتا رہا ، آج بھی تمام عمارت اسی کیمیائی تحریک کے زیرِ اثر ہے اس کی طرف بھی دار العلوم کے ذمہ داروں کی توجہ ہے کہ پوری مسجد کی صفائی کر کے اس پر پالش کر دی جائے، ورنہ اس خوبصورت عمارت کو زبردست نقصان ہوگا۔
بلور کا سامان
نواب شاہجہاں بیگم نے تاج المساجد کے لئے بلور کے مصلّے، کلس اور فوّارے اور زنانہ حصہ کے لئے بلوری فرنیچر تیار کراکے منگوایا تھا، سلطان جہاں بیگم لکھتی ہیں: ”اس کی تعمیر پر ۱۵۔ ۱۶ لاکھ روپے صرف ہو چکا ہے، اس کا بلوری فرش انگلینڈ میں بصرف ۷ لاکھ روپے ایک بڑے کارخانہ میں تیار کرایا گیا“۔
لیکن جب بلور کے مصلّے آئے جو چار چار ٹکڑوں پر مشتمل تھے اور ان کے نصب کئے جانے کا وقت آیا تو علماء کو اس سے سخت اختلاف ہوا کہ اس میں صورت نظر آئے گی، لہٰذا یہ عمل ناجائز ہے اس پر نواب شاہجہاں بیگم نے علماء سے فتویٰ پوچھا اس سلسلہ میں مولانا سید ذو الفقار علی نقوی مرحوم اپنی تالیف میں لکھتے ہیں:
”الحمد للہ سرکار خلد مکان نے تاج المساجد کے واسطے کانچ کے مصلّے بنوائے تھے اس کی بابت علماء سے فتویٰ پوچھا اور ارشاد ہوا کہ قاضی صاحب سے بھی فتویٰ لیا جائے، میں نے قاضی مولوی عبد اللہ کابلی کو لکھا کہ ارشادِ سرکاری ہے کہ آپ بھی فتویٰ لکھ کر بھیجیں“۔
چنانچہ انہوں نے حسبِ ذیل فتویٰ لکھا (بھوپال کے قضاۃ وافتاء، قلمی نسخہ)
سوال: کانچ یا بلور کے مصلّوں کا فرش مسجد کے دالانوں اور صحن میں کیا جائے تو حرام ہے یا جائز؟
جواب: بلور کے مصلّوں کا فرش مسجد میں حرام نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے، کئی وجوہ سے
اول: یہ کہ قرآن وحدیث میں اس کی تحریم نہ عموماً مکانات میں استعمال کی مذکورہے نہ خصوصاً مساجد میں اور بغیر موجود ہونے دلیلِ تحریم کے تحریم ہو سکتی نہیں، باوجود یہ کہ اصل اشیاء میں محققین کے نزدیک حلت ہے۔
دوسری وجہ: سورۃ نمل میں مذکور ہے کہ حضرت سلیمانؑ کی طرف سے بلقیس (ملکۂ سبا) کو اس قصر میں داخل ہونے کا امر کیا گیا جو شیشہ سے جڑا ہوا تھا چنانچہ خود آپ نے اس کی تصریح بلقیس کے روبرو فرمائی تو اس سے عموماً مکانات میں کانچ کے استعمال کا جواز مستنبط ہوا کیونکہ یہ قصہ اگرچہ شریعتِ گذشتہ کا ہے مگر قاعدہ مسلّمہ علماء معتبرین کا یہ ہے کہ جب قرآن وحدیث میں پہلوں کے قصے بیان ہوں اور ان پر انکار نہ کیا گیا ہو اور نہ ان کا فسخ ہماری شریعت میں آیا ہو تو وہ ہمارے لئے برا نہیں ہے اور یہ قصہ ایسا ہی ہے کہ یہ نہ معرضِ ذم وانکار میں بیان کیا گیا ہے نہ اس کا فسخ ہماری شریعت میں وارد ہوا ہے تو استنباط مذکور صحیح ہوا اور جب عموماًمکانات میں استعمال کانچ کا جائز ہوا تو مسجد میں بھی جواز کا ہی حکم رہے گا جب تک کوئی دلیلِ خاص مسجد میں نہ ہونے استعمال کی پائی جائے۔
وجہِ سوم: اس کے قریبِ جواز میں بطرزِ دیگر وہی امر ہے جو تعلیقاً امامِ بخاری نے اپنی صحیح میں حضرت ابن عباسؓ اور حسن بصریؒ سے روایت کیے ہیں آخر اول یہ ہے کہ”صلّی ابن عمرؓ علی الثلج“یعنی حضرت ابنِ عمرؓ نے برف پر نماز پڑھی ہے،حسن بصریؒ کےنزدیک اس میں کچھ ڈر نہ تھا کہ جملہ پر کوئی نماز پڑھے، جملہ کے معنیٰ پانی جو کہ مثل پتھر ہو جائے، بعض نے جملہ کی تفسیر “ “برف” “ سے کی ہے، پس جما ہوا پانی نہایت صاف وشفاف ہوتا ہے اور عکس بھی کسی قدر اس میں پڑتا ہے اور برف کی صفائی اور چمک بھی ظاہر ہے۔
وجہِ چہارم: جس قدر مواضع ممانعتِ نماز کے احادیث میں مذکور ہیں،جیسے کوڑے گھر، مسلخ، قبرستان، چلتے راہ، حمام، شتر خانہ، خانہ کعبہ کی چھت وغیرہ ان میں فرشِ کانچ وبلور نہ خصوصاً داخل ہے نہ عموماًپس ان سب وجوہ سے ثابت ہوا کہ (شیشے کے)فرش کا استعمال مسجد میں حرام نہیں البتہ اباحت وجواز میں ہے، اب رہا یہ امر کہ جواز کوئی مستحسن ہے یا غیر مستحسن؟ ادب ہے یا خلافِ ادب؟ یا دونوں جانبین برابر ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ سلف کا طریقہ تزئین سے فائدہ کا نہ تھا اور اس سے احتراز کے بارے میں بعض احادیث وآثارِ صحابہؓ، کتب احادیث میں آئیں ہیں اور یہ تزئین بظاہر خضوعِ قلب وخشوع میں خلل انداز معلوم ہوتی ہے، نظر بروجوہِ مذکور یہ غیر مستحسن وخلافِ ادبی کے مرتبہ میں ہے، مستحب اور ادب سادگی میں ہے۔
یہاں پھر ہم کو شاہجہاں بیگم کی کمالِ دینداری کی مثال ملتی ہے کہ انہوں نے صرف استحباب کی خاطر باوجود بہت زیادہ خواہش کے ان مصلّوں کو نصب نہیں کیا۔
افسوس کہ یہ سارا ساز وسامان چوری ہو گیا، جب ۱۹۷۱ء میں تاج المساجد کی تکمیل کا افتتاح ہوا تو بمشکل تمام اس مصلّے کا ایک مکمل نمونہ حاصل ہو سکا جو کتب خانہ دار العلوم میں محفوظ ہے۔
تعمیری کام کی موقوفی
سن ۱۹۰۱ء میں شاہجہاں بیگم کے انتقال کے بعد تعمیری کام موقوف ہو گیا، سلطان جہاں بیگم جو شاہجہاں بیگم کی بیٹی تھیں اور ان کےبعد جانشین بھی ہوئیں ان کے عہد حکومت میں تاج المساجد کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع نہیں ہو سکا، تمام معمار وفنکار دوبارہ کام شروع ہونے کے منتظر رہے لیکن وقت گذرتا رہا اور یہ فنکار و معمار عسرت کا شکار ہو کر بدحالی میں بھوپال کو الوداع کہتے رہے۔
نواب حمید اللہ خاں کی دلچسپی
۱۹۳۷ء میں نواب حمید اللہ خاں کی توجہ نامکمل مسجد کی تعمیر کی طرف ہوئی تو ماہرین فن نے اس کی مخالفت کی،کیونکہ ۳۶۔ ۳۷ سال تک بارش میں مستقل بھیگنے اور دیگر فنی خرابیوں کی وجہ سے اسی نقشہ پر تعمیر مناسب نہیں سمجھی گئی، لہٰذا یہ طے پایا کہ دونوں میناروں اور چھت کے گنبدوں پر المونیم وغیرہ کے ہلکے قبّے تیار کر کے فٹ کر دئیے جائیں، اس میں دو سال کا عرصہ گذر گیا، ستمبر ۱۹۳۹ء میں جنگِ عظیم دوم کا آغاز ہو گیا اور مسجد سے توجہ ہٹ کر بیراگڑھ کے جنگی قیدیوں کے کیمپ کی جانب مبذول ہو گئی۔
جنگ کے اختتام کے بعد دوبارہ سرگرمی شروع ہوئی اور نواب صاحب نے تکمیل کے لئے سرور قریشی صاحب آرکیٹیکٹ کا انتخاب کیا کہ تخمینہ جات منظور کروائیں نیز انہدامِ فصیلِ قلعۂ شہر بھوپال کی تجویز بھی ساتھ ساتھ منظور کی اور ان دونوں کاموں کی ذمہ داری سرور صاحب کے سپرد ہوئی، غرض تمام کاوشوں کے بعد شمالی دروازہ پر کچھ کام شروع ہوا، صحن کی بھرتی شروع ہوئی ابھی بہت کچھ کام باقی تھا کہ سیاسی حالات پھر سے حارج ہوگئے اور کام پھر بند ہو گیا۔
تکمیل مسجد
تاج المساجد کے حصول کے بعد سے ہی مولانا محمد عمران خاں ندوی ازہری کو اس کی تکمیل کی فکر سوار ہو گئی تھی، مولانا نے پچاسوں بار فرمایا کہ ان کی نیت تو مکمل تعمیر کی ہے لیکن کامیابی خدا کی مرضی پر منحصر ہے۔
قیامِ دارالعلوم سے لے کرتاج المساجد کی تکمیلی مہم کا حال
مولانا عمران خاں نے جب سے تاج المساجد کی دیکھ بھال اور نگرانی اپنے ذمہ لی اسی وقت سے قدیم منصوبہ کو پیشِ نظر رکھا اور بعض حالات کی وجہ سے جب مسجد کے باہر موقوفہ زمینوں اور عمارتوں کو تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال نہ کر سکے تو اس وسیع وکشادہ مسجد کی محرابی گیلریوں اور دالانوں میں اس طرح تعمیر، اصلاح اور ترمیم کرتے رہے کہ ایک طرف اس عظیم الشان قابلِ فخر اسلامی یادگار کی خوبصورتی متاثر نہ ہو اور دوسری طرف وہ علمی ودینی ادارہ دار العلوم تاج المساجد کے لئے تمام ضروری عمارتوں کا کام دیتی رہے، مزید برآں اجتماع کے لئے حاضرین کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں حاصل ہوں۔
وہ تمام تعمیری کام جو ۱۹۷۱ ء کی باقاعدہ تعمیرسے پہلے انجام پائے
حوض
یہ حوض ۵۰ × ۵۰ مربع فٹ ہے اوراس کے چاروں طرف ساڑھے سات فٹ کاپختہ چبوتراہے،حوض کی گہرائی ۴فٹ تک ہے ۔ ہزاروں کے مصارف اورسینکڑوں مخلص مسلمانوں کی لوجہ اللہ تعالی مزدوری سے ایک مہینہ سے کمترمدت میں ۱۹۵۱ ء کے آخری دنوں میں تیسرے اجتماع سے عین قبل یہ حوض مکمل ہوگیا
حوض کے وسط میں ایک بلوری فوّارہ نصب کردیاگیاہے جس سے اس کی رونق دوبالا ہو گئی اس حوض کے لئے شاہجہاں بیگم نے بلورکی اینٹیں منگوائی تھیں ،لیکن ان کے انتقال اورکام بندہوجانے کی وجہ سے وہ تمام سامان چوری ہوگیا، اس لئے یہ حوض عام اینٹوں سے تعمیرہوا،اور اب وہ فوّارہ بھی نہ رہا ۔
سنگین مصلّے
صحن کا۷۵فیصد حصہ گہرے گڑھوں پرمشتمل تھا،نواب حمید اللہ خاں صاحب کے عہد کی بھرتی کے باوجود آدھے سے زیادہ صحن باقی تھا ۔ دارالعلوم قائم ہونے کے بعد گڑھوں کوبھراگیا ،پھراس میں سنگین مصلّے نصب کئے گئے،تقریبًا آدھا صحن تکمیلی مہم سے پہلے تیار ہو چکاتھا ۔
تشکیل کمرہ جات
مسجدکے طویل صحن کو۱۲فٹ چوڑی محراب دارگیلری شمال و مشرق کی طرف سے گھیرے ہوئی تھی، جنوب میں گیلری نا مکمل تھی، ان تما م تعمیرشدہ گیلریوں کوکمروں کی شکل میں تبدیل کردیاگیاہے،اس سلسلۂ تعمیر میں ۵۶۲۰فٹ دیواروں کی چنائی ہوئی ۔ ۸۵بڑی چوکھٹیں اوردروازے لگائے گئے،۱۱۶کھڑکیاں نصب ہوئیں اور ۱۰۰روشندان بنائے گئے ، ۴۱ کتبے نصب کیے گئے،اس کے بعد سے یہ تعمیرشدہ کمرے دارالعلوم کے مختلف کاموں میں استعمال ہوتے رہے ہیں جیسے، مہمان خانہ ،دفترِ دارالعلوم،دارالطعام ،دارالاقامہ و بورڈنگ ہاؤس جس میں تقریبًا ۲۲۰لڑکے رہ سکتے ہیں ،کتب خانہ اور مسجد کے ساز و سامان کا اسٹور ۔
تکمیلِ فرش
مسجد کے بالائی عظیم الشان ہال میں اورمشرقی دالان میں اورشمال مغربی دالان میں کہیں فرش مکمل نہ تھا،اورکہیں بالکل نہ تھا،اس کی تکمیل کی گئی ،جس کی مجموعی لمبائی ۲۰۰فٹ اورعرض ۱۲فٹ ہے۔
زینے
مسجد میں آمد ورفت کے لئے صرف تین دروں کے سامنے تین زینے تھے،لیکن اب تمام دروں کے سامنے مسلسل زینے قائم کردیئے گئے ،نیز مسجد کے شمال وجنوب میں زنانہ مسجد اوراس کے صحن میں آمدورفت کے لئے بھی زینے بنادیے گئے
غسل خانے اوراستنجاخانے
جنوبی سمت میں مسجد سے متصل زنانہ مسجد کے لئے پانچ استنجا خانے اورغسل خانے بنائے گئے اورمسجد کے اسی رخ میں بیرونی استعمال یعنی دارالاقامہ وغیرہ کے لئے چار غسل خانے اور پانچ استنجاخانے بنوائے گئے
مبطخ
دارالعلوم کے ساتھ چونکہ دارالاقامہ بھی ہے اورمقیم طلبہ کی تعدادخاصی رہتی ہے،اس لئے ضرورت تھی کہ ان کے کھانے اورناشتے کے انتظام کے لئے باورچی خانہ ہو،چنانچہ جنوبی سمت میں بیرونِ مسجد ۲باورچی خانے بنادیئے گئے تھے
مینارِ مسجد
اس ناتمام مسجد کے نامکمل مینارے بھی اونچے نیچے تھے،اس سلسلہ میں شمالی مینارہ کوتقریبًا ۴۰فٹ بلند کرکے جنوبی مینارے کے متوازی کیاگیا ۔ میناروں کی بلندی ۲۲۸ فٹ اور قطر۲۵فٹ ہے ۔
مسجد کی چھتیں
مسجد کی تعمیر ۱۹۰۱ء سے بند تھی اور جس کی تعمیر وتکمیل نہ ہو سکی ہو اس کی چھتیں کہاں کہاں سے نہ ٹپکتی ہوں گی اور بارش کا پانی اس کے در و دیوار میں کس طرح جذب ہو رہا ہوگا اس کی تفصیل یہاں بیان کرنا مشکل ہے ، اس مشکل پر کسی حد تک قابو پانے کی کوشش کی گئی تھی اس طرح کہ کہیں چھتیں ڈالی گئیں کہیں درازیں بند کی گئیں اور کہیں پلاسٹر کروادیا گیا۔
صحنِ مسجد
مسجد کا صحن ناہموار، غیر مسطح اور ناقابلِ استعمال تھا، سینکڑوں ٹرک ملبہ حاصل ہونے اور سینکڑوں مخلصین کی محنتوں کے بعد وہ بڑی حد تک قابو میں آیا۔
برقی روشنی
اس عریض ووسیع مسجد میں بجلی کی فٹنگ بھی آسان کام نہ تھا لیکن خدا کے فضل وکرم سے وہ کام بھی بڑی حد تک مسجد کے اندرونی رقبے ، صحنِ مسجد، نو تعمیر کمروں (جن میں اسٹور، دفتر، دار الطعام، دار الاقامے، کتب خانہ وغیرہ ہیں) اور مسجد کے بازو والے زنانہ مسجد کے حصوں میں مکمل ہو گیا غرضیکہ اتنے بڑے علاقے میں مجموعی طور پر تقریباً ۳۰۰۰ فٹ بجلی کی لائن ہے۔
پانی کا انتظام
پہلے تاج المساجد میں نل کی شاخ صرف بیرونی کھلے غسل خانے والے حوض اور ایک آہنی ٹنکی تک تھی یہ ٹنکی جنوبی سمت میں دالان سے ملحق رکھی ہوئی تھی نیز نل کی لائن حمیدیہ اسکول والی لائن سے آتی تھی اور ہمیشہ پانی کی کمی رہتی تھی اب خدا کے فضل وکرم سے مزید چوڑی لائن کا بلا شرکتِ غیرے اصل لائن سے کنکشن حاصل ہو چکا ہے اور بڑی حد تک ضرورت کے مطابق پانی مہیا ہے اس سلسلہ میں تقریباً ۵۲۶ فٹ کا مختلف سائز کا پائپ صرف ہوا ہے۔
یہ سب کام۱۹۶۰ء تک انجام پائے تھے ۔
:سن ۱۹۷۱ء سے قبل جبکہ باقاعدہ تکمیلی مہم شروع ہوئی کچھ اور کام اس طرح ہوئے
شمالی رخ میں زنانہ مسجد کے ایک طویل دالان کافرش مکمل کروایاگیا ۔ *
وسطی محراب کے سامنے سنگِ مرمرکازینہ بنوایاگیا ۔ *
مابقیہ محرابوں کے سامنے سنگین زینے بنوائے گئے ۔ *
صحنِ مسجد میں عارضی سایہ کے لئے آہنی ستون قائم کرکے آہنی جال کھینچاگیا کہ تاکہ اجتماع میں ان پر سایہ کے لئے ٹاٹ وغیرہ لگایا جاسکے *
تعمیرِ جدید کی کوششوں کا آغاز
تاج المساجد کو مکمل کرنے کی حسرت اور آرزو مولانا کے دل میں روز اول سے ہی چٹکیاں لیتی رہتی تھی لہٰذا جب جب موقع ملا کچھ نہ کچھ تعمیر ہوتی رہی جیسا کہ ابھی گذشتہ سطور میں بیان کیا گیا ہے۔
شمالی دالان کی تعمیر کی تجویز
دس دسمبر ۱۹۶۶ء کے جلسۂ مجلسِ شوریٰ میں منجانب امیرِ دار العلوم تاج المساجدکے شمالی دالان کی تعمیر کے لئے تجویز پیش کی گئی ، تمام امور پر غور کرنے اور مناسب تجاویز مرتب کرنے کے لئے ارکانِ مجلسِ شوریٰ پر مشتمل ایک کمیٹی کی تشکیل منظور کی گئی اور طے کیا گیا کہ یہ کمیٹی معاملات کے تمام پہلؤوں پر غور کر کے اور حسبِ ضرورت ماہرینِ فنِ تعمیر سے مشورہ کر کے خدا کے بھروسہ پر کام شروع کر دے، نیز اجازتِ تعمیر حاصل کرنا اور فراہمیِ سرمایہ کے لئے مناسب نظام بنانا اس کمیٹی کے ذمہ قرار دیا گیا، فی الحال یہ کمیٹی اسی رقم سے کام شروع کر دے جو ایک صاحب خیر نے اسی مقصد سے مختص کر رکھی ہے بقیہ مصارف کے لئے مناسب تدبیریں اختیار کی جائیں اور کمیٹی اپنی کارکردگی کی رپورٹ مجلسِ شوریٰ میں پیش کرتی رہے اس کمیٹی کے ممبران مندرجہ ذیل اصحاب تھے : ”مولانا محمد عمران خاں صاحب، مولانا سید حشمت علی صاحب، عبد الحمید خاں صاحب اوورسیر، مولانا سید منظور حسین صاحب سروش، جناب عبد الرؤوف خاں صاحب، جناب افتخار صاحب“۔
شوریٰ میں شمالی دالان کی بات آچکی تھی، چھت کی خرابی اور اس میں مسلسل اضافہ سخت حیرانی اور پریشانی کا باعث تھا ماہرین خاص طور پر عبد الحمید صاحب اوورسیر جو کہ ممبرِ شوریٰ بھی تھے اور ماہر تعمیر بھی ان کا بھی یہی خیال تھا کہ چھت کی حالت ابتر ہے اس لئے سب سے پہلے اس کی فکر ہونی چاہیے۔
مولانا مرحوم فرماتے ہیں کہ ”اکتوبر ۱۹۶۷ء کی ابتداء میں جب حضرت صاحبؒ نے پہلی بار مجھ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا مولوی صاحب! تاج المساجد کی طرف آپ توجہ کیوں نہیں کرتے؟ تو میں نے عرض کیا کہ میں کیا کر سکتا ہوں؟ جس کام کو والیانِ ریاست نہ کر سکے اس کے کرنے کی ہمت اس زمانہ میں کون کرے اور کیسے کرے؟ فرمایا آدمی ہی ان کاموں کو کرتے ہیں ہمت تو کیجئے ہمت کیوں ہارتے ہیں“؟۔
یہی بات تقریبًا ۱۲/اگست ۱۹۶۹ ء کی شوریٰ میں مولانامرحوم نے تحریرکی ہے:
”تعمیر وتکمیل تاج المساجد بلاشبہ ہمارا مقصد تھا لیکن اپنی بے بضاعتی کی بنا پر ہم آرزو مندی کے ساتھ ساتھ مبتلاء حسرت بھی تھے ، لیکن کچھ اس طرح ہوا کہ سالہا سال کی خاموشی کے بعد حضرت شاہ محمد یعقوب صاحب مجددی مدّ ظلّہ العالی نے کسی سیاق وسباق کے بغیر ارشاد فرمایا کہ ارے مولوی صاحب! یہ تاج المساجد کب تک یونہی پڑی رہے گی؟ اس کی تعمیر کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عجب گومگو کے ساتھ اظہارِ کشمکش کر دیا، کشمکش یہ تھی کہ حضرت صاحب کا ایماء کیسے ٹالا جائے؟ اور دوسری طرف یہ فکر کہ اس مہم کو سر کیسے کیا جائے “؟۔
مولانا مرحوم نے مزید فرمایا: ”تاج المساجد کی فکر مجھ پر ہمہ وقت سوار رہتی تھی اور تعمیرِ مسجد کے نام پر کوئی چندہ نہ دیتا تھا البتہ دار العلوم کے لئے لوگ چندہ دے دیتے تھےکیونکہ دار العلوم کھلے ہوئے ۲۰ برس ہو چکے تھے اور لوگوں کے اس چندہ پر ہی دار العلوم برابر چل رہا تھا لیکن تاج المساجد کے لئے چندہ مانگوں تو لوگ کہتے کہ مولوی صاحب! دنیا کے سارے کام ہو سکتے ہیں لیکن تاج المساجد کی تعمیر نہیں ہو سکتی لہٰذا جو چیز ہو ہی نہیں سکتی اس کی تعمیر کے لئے چندہ دینے سے کیا حاصل؟ دو ،چار، پانچ ہزار سے اس کا کیا ہوگا یہ تو لاکھوں کی طالب ہے“۔
یہی بات جب بھوپال نژاد کینڈا کے باشندے جناب انعام اللہ مکی صاحب کو مولانا مرحوم نے چندے کی اپیل کرتے ہوئے بتائی تو پہلے پہل ان کو یقین ہی نہ ہو سکابے ساختہ ان کے منہ سے یہی نکلا کہ نا ممکن ہے لیکن بمشکل تمام ان کو یقین دلایا جا سکا کہ ایسا ہو رہا ہے آپ خود آکر ملاحظہ فرمائیں۔
”یہ تمام صورتحال حضرت صاحب کو بھی بتائی گئی انہوں نے بڑی توجہ سے ساری باتیں سنیں اور فرمایا کہ ایسا کرو کہ بھوپال اور ہندوستان کو چھوڑو تم تو کہیں باہر چلے جاؤ اور شروع میں لاکھ دو لاکھ چندہ لے آؤ، بھوپال کے لوگ بہت مایوس ہیں، اس کے بعد دیکھو اللہ تعالی کس طرح خزانے کھولتا ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ کئی دنوں سے یہ خیال میرے ذہن میں بھی آرہا ہے کہ باہر چلا جاؤں وہاں واقف کار لوگ بھی ہیں“۔
تعمیر تاج المساجد کے تشنہ کام
جب یہ طے ہوا کہ تکمیل مسجد کی مہم کو شروع کرنا ہے تو باقاعدہ پروگرام بنایا گیا اور تعمیری وتکمیلی نقطۂ نظر سے سب سے زیادہ اہم اور مقدم حصے حسبِ ذیل قرار پائے جن کا تخمینہ بھی ذیل میں دیا جا رہا ہے۔
۲ لاکھ | تمام چھتوں کاپراناپلاسٹرنکال کر(جوبالکل بیکارہوچکاہے)چونے یاگٹی کا پورا پلاسٹر ڈالا جائے ۔ | ۱ |
۲۰ لاکھ | مسجدکے گنبد مکمل کرائے جائیں تاکہ ایک ضروری تکمیل کے ساتھ برساتی پانی کی زد سے مسجد کوبچایاجائے ۔ | ۲ |
۳ لاکھ | بالائی حصوں میں بددیانت ٹھیکے داروں نے جو چھت ڈالی ہے گرنے پرہے،اسے تبدیل کرایاجائے ۔ | ۳ |
۳ لاکھ | شمالی دالان کابڑاحصہ (۲۲/دروں والا) نامکمل ہے ،اس کوتعمیرکرایاجائے ۔ | ۴ |
۹ لاکھ | مشرق میں مسجد کامرکزی عظیم الشان دروازہ جو ۷۰ / سال سے نامکمل ہے اسے مکمل کرایاجائے ۔ | ۵ |
۵۰ ہزار | وہ گڑھاجوتقریبًا ۱۰۰ فٹ طویل ۴۰ فٹ عریض اور ۱۵ فٹ عمیق ہے ، وہاں تہہ خانہ بنایا جائے ۔ | ۶ |
۵۰ ہزار | اندرونی تعمیرکی تکمیل کے ساتھ ساتھ اس وسیع وعریض مسجد کے پانی کی نکاسی کے لئے بھی راستے قائم کیے جائیں ۔ | ۷ |
۱ لاکھ | صحنِ مسجد کوسنگین مصلّوں سے ڈھانک دیاجائے کہ پوراصحن نماز کے لئے سازگار ہو جائے | ۸ |
۳۰ لاکھ | مینارہائے مسجد کی تکمیل کی جائے تاکہ ان میناروں سے برساتی پانی بہنابند ہو ۔ | ۹ |
۵ لاکھ | شمالی زینہ تالاب تک بنایاجائے ۔ | ۱۰ |
۱ لاکھ | متفرقات | ۱۱ |
۷۵ لاکھ | مجموعی رقم تقریبًا |
اس کے بعد چندہ کی مہم کے لئے فوٹو پمفلٹ اور کاغذات وغیرہ کی تیاری کا بھی مرحلہ آیا، جس کو پروفیسر مسعود الرحمٰن صاحب نے اپنی فطری مستعدی اور اہتمام سے بہت جلد جدید انداز میں تیار کرادیا۔
احاطۂ دار العلوم میں دیگر تعمیرات
اندرون مسجد کی تعمیر کی تفصیل گذشتہ سطور میں گذر چکی ہے، دار العلوم نے مولانا کی عبقری سمجھ اور اپنے بلند مرتبہ کے پیش نظر نہ صرف تاج المساجد کے آس پاس زمین حاصل کی بلکہ ایک زبردست تجارتی کامپلکس بنا کر دار العلوم کی مالیات کو ہمیشہ کے لئے مستحکم کر دیا۔
تعمیر دوکانات
تاج المساجد کی تکمیل کا مرحلہ جاری تھا بڑے زور و شور سے اہل بھوپال اور اہل ہند تعمیر کے کاموں میں حصہ لے رہے تھے کہ آراضی دار العلوم کا دیرینہ مسئلہ ماہ دسمبر ۱۹۷۴ء میں حل ہو گیا اور وسیع قطعات آراضی پر دار العلوم کو قبضہ بھی مل گیا اور مرحلہ وار تعمیر دوکانات کی اجازت دینے کا وعدہ بھی حکومت کی طرف سے کر لیا گیا، تکمیل تاج المساجد کے بہت سے کام ہو چکے تھے پھر مولانا اور اصحاب شوریٰ کی رائے ہوئی کہ جلد تعمیر دوکانات کی اجازت لے کر تعمیر فوراً شروع کی جائے ورنہ حکومتوں کی تبدیلی سے حالات میں تبدیلی اور نئے نئے مسائل جنم لیتے ہیں اس لئے دوکانات کی تعمیر کا اجازت حاصل کرنے کی دوڑ دھوپ شروع ہو گئی، جب فراہمی سرمایہ کا مسئلہ پیدا ہوا تو مولانا کی رائے تھی کہ اہل بھوپال وہند نے تعمیر تاج المساجد کے لئے جس طرح کھول کر چندہ دیا ہے اور دے رہے ہیں اور اس کے کئی کام ابھی باقی ہیں اس لئے تعمیر دوکانات کسی دوسری مد سے ہونا چاہئے۔
مولانا کی رائے میں ایک رقم (۵۶ ہزار روپے) جو مقدمہ لڑنے کے لئے ۱۹۵۲ء میں جمع کی گئی تھی اس کا بڑا حصہ محفوظ تھا، دوسری رقم وقف کرنل اقبال محمد خاں صاحب کی فروخت شدہ آراضی کے حساب میں ۴،۸۵،۷۵۱ روپے جمع تھے اس مد سے قرض لے کر کام کر لیا جائے او جو آمدنی ہو وہ قرض کی ادائیگی میں بالاقساط دے دی جائے تاکہ جلد از جلد اس وقف کا قرضہ ادا ہو۔
مذکورہ بالا وجوہات سے اور خاص اس وجہ سے بھی کہ دوکانا ت تعمیر ہونے سے تعمیرات کے کام میں مدد ہوگی تعمیر دوکانات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا اس کے ساتھ ساتھ تعمیر مسجد کے کام بھی چلتے رہے لیکن دوکانوں اور دیگر تعمیری کاموں میں اضافہ ہوا تو چھت کا اصل کام رک گیا اور دیگر کام ہوتے رہے پھر مولانا سید سلیمان ندوی سمینار ۱۹۸۵ء کے موقع پر ان کی یاد میں سلیمان ہال کی تعمیر کی تجویز پاس ہوئی تو توجہ اس طرف منعطف ہو گئی ، مولانا مرحوم اور مولانا منظور سروش صاحب مرحوم کے دور میں چھت کا کام مکمل نہ ہو سکاتھا اس کی ایک ٹیکنکل وجہ یہ بھی تھی کہ بعض ماہرین کی رائے تھی کہ موجودہ چھت پر ہی آر سی سی کی ایک چھت اور ڈال دی جائے تاکہ ملبہ نکالنےمی پتھر کی سلوں کے ٹوٹنے کا خطرہ نہ مول لینا پڑے وہیں دوسری رائے یہ تھی کہ مٹی اور سارا ملبہ پتھروں تک کھرچ کر نکال دیا جائے اور ان پتھروں پر آر سی سی کی چھت ڈال دی جائے انہی وجوہات کی بنا پر تاخیر ہوتی چلی گئی پھر یہ مسئلہ امیر سوم پروفیسر مولانا محمد حسّان خاں صاحب مدّ ظلّہ العالی کی امارت کے دوران ۱۹۹۸ء میں پورا ہو سکا۔
مجلس شوریٰ کے جلسہ منعقدہ ۱۰/فروری ۱۹۷۵ء میں مولانا مرحوم نے یہ یادداشت پیش کی: ”جیسا کہ معزز ممبران مجلس شوریٰ دار العلوم تاج المساجد بھوپال کے علم میں ہے کہ بفضلہ تعالیٰ تاج المساجد کے گرد و پیش وسیع قطعات آراضی پر دار العلوم تاج المساجد بھوپال کو قبضہ مل گیا ہے اور یہ بھی طے ہو گیا ہے کہ ان قطعات پر مرحلہ بمرحلہ عمارات تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے گی، ان شاء اللہ سب سے پہلے اس قطعہ پر عمارت تعمیر ہوگی جو حمیدیہ روڈ (ٹھیلے والی سڑک) کے مغرب میں یعنی جو جگہ تاج المساجد کے جنوبی میدان کے مشرق میں واقع ہے، سرسری اندازہ کے مطابق کم و بیش تیس چالیس عمدہ کشادہ دوکانیں تعمیر ہوں گی، یہ بہت بڑا تعمیری منصوبہ ہے اور اس کے لئے لاکھوں روپیوں کی ضرورت ہوگی، دار العلوم کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کام کے لئے بینکوں وغیرہ سے سودی قرض حاصل کرے، خود دار العلوم کے پاس کوئی بڑا سرمایہ نہیں ہے اس کام کے لئے عام چندہ جات حاصل کرنا بھی فی الحال نامناسب ہے کیونکہ اصل مسجد کی تعمیر کا کام بھی جاری ہے اور ابھی اس کے لئے ہی لاکھوں روپیہ کی ضرورت ہے جو صرف چندہ جات وعطیات سے پوری ہو سکتی ہے اس لئے حسب تجویز مجلس شوریٰ دار العلوم تاج المساجد مؤرخہ ۲۶/دسمبر ۱۹۷۲ء آراضی احاطہ تاج المساجد پر دوکانات کی تعمیر کے لئے کمیٹی وقف زراعت محمدیہ باڑی سے ۵ لاکھ روپے بوعدہ ادائی ۵۰ ہزار روپیہ سالانہ دار العلوم تاج المساجد نے قرض لئے، اس قرض کی ادائیگی کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ تعمیر شدہ عمارات سے جو آمدنی ہو وہ ابتداء میں (نگہداشت وتکمیل ضروریات عمارات کے مصارف منہا کر کے) حتی الامکان پوری کی پوری ادائے اقساط قرض میں صرف کی جاتی رہے،یہ امید کرنا شاید غلط نہ ہو کہ تیس دوکانیں تعمیر ہو جائیں تو ان سے تقریباً ۷۲،۰۰۰ سالانہ آمدنی کی توقع ہے اس میں سے ان شاء اللہ کم از کم پچاس ہزار سالانہ قسط دینا ممکن ہوگا، اس طرح دس سال میں پورا قرضہ خدا کو منظور ہے تو ادا ہو سکے گا، اس کا بھی قوی امکان ہے کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ اس سے پہلے ہی یہ قرضہ بے باق کر دیا جائے، چونکہ وقف زراعت محمدیہ باڑی کی آمدنی سے استفادہ کا حق صرف دار العلوم تاج المساجد بھوپال ہی کو ہے اس لئے اگر وقف مذکور کی رقم تعمیر دوکانات پر خرچ ہو تو اس کو بے محل نہیں کہا جا سکتا، اس سے کسی نہ کسی نہج پر بالآخر دار العلوم ہی مستفید ہوگا ساتھ ہی وقف زراعت محمدیہ کا اصل سرمایہ بھی محفوظ رہے گا اور جب دار العلوم وقف زراعت محمدیہ کا قرضہ ادا کر دے گا تو وقف زراعت محمدیہ کے لئے جداگانہ کوئی غیر منقولہ جائیداد حاصل کی جا سکے گی، دوسری طرف دار العلوم کے لئے اپنی نو تعمیر جائیداد کی آمدنی سے دار العلوم اور تاج المساجد کی ضروریات کی تکمیل ممکن ہو جائے گی اس طرح یہ منصوبہ ہر نہج سے ان شاء اللہ محتاط منفعت بخش اور قابل عمل ثابت ہوگا، اگر مجلس شوری بھی اس منصوبہ سے متفق ہو تو کمیٹی انتظامیہ وقف زراعت محمدیہ باڑی سے قرض حاصل کرنے کی استدعاء کی جائے“۔
تجویز بالا بالاتفاق منظور ہوئی اور طے ہوا کہ”آراضی احاطہ تاج المساجد کی تعمیر کے لئے وقف زراعت محمدیہ باڑی سے پانچ لاکھ روپیہ بوعدہ ادائی پچاس ہزار روپے سالانہ قرض حاصل کرنےکی کاروائی کی جائے اگر کمیٹی وقف زراعت محمدیہ باڑی منظور کر لے تو یہ رقم بعد تکمیل ضابطہ قرض حاصل کر لی جائے“۔
دوکانوں کی تعمیر کی اجازت اور کام کی ابتداء
آراضی پر قبضہ حاصل ہوتے ہی تعمیر دوکانات کی اجازت کی کارروائی شروع کر دی گئی تھی اس اجازت میں طرح طرح کی مشکلات اور پریشانیاں آتی رہیں لیکن مولانا کے بلند مقام اور ان کے خلوص کی وجہ سے تمام مشکلات آسان ہوتی گئیں۔
سال۱۹۷۵ء ۱۸/جون کو جناب ایم این بچ صاحب ایڈمنسٹر میونسپل کارپوریشن اور کمشنر ٹاؤن اینڈ کنٹری پلاننگ کے رو برو باقاعدہ تعمیر کی اجازت کی درخواست مع نقشہ دی گئی کئی بار رد و بدل کے بعد بالآخر نقشہ منظور ہوا۔
جناب فخر الدین علی احمد صاحب صدر جمہوریہ ہند نے ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۵ء کو ان دوکانات کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا، لیکن اس کے بعد بھی کئی مسائل اور مشکلات پیش آتی رہیں جن کی وجہ سے مارچ ۱۹۷۶ء سے پہلے کام شروع نہ ہو سکا۔
دوکانات کے بالائی حصہ کی تعمیر کی اجازت
مسلسل کوشش وپیہم جدو جہد کے نتیجہ میں مئی ۱۹۷۸ء میں بالائی منزل کی تعمیر کی منظوری حکومت اور میونسپل کارپوریشن سے مل گئی اس وقت امیر دار العلوم انگلینڈ کے چندہ کے دورے پر گئے ہوئے تھے، قائم مقام امیر دار العلوم مولانا سید منظور حسین صاحب سروش اور ذمہ داران اور مجلس شوریٰ کے لوگ باوجود رقم موجود نہ ہونے کے اس بات کے لئے کوشاں تھے کہ جس طرح بھی ہو جلد بالائی منزل کی تعمیر کر لی جائے ورنہ انقلابات زمانہ اور حکومتوں کی تبدیلی کے نتیجہ میں اجازت پھر معرض التواء میں پڑ جانے کا احتمال تھا۔ ۲۵/دسمبر ۱۹۷۸ء کے منعقدہ جلسے میں اس سلسلہ کی دلچسپ اور مفصل یادداشت پیش کی گئی ہے:
معزز ممبران مجلس شوریٰ دار العلوم تاج المساجد بھوپال کو تاج مارکیٹ کی تعمیر کے سلسلہ میں حالات وواقعات سے وقتا فوقتا مطلع کیا جاتا رہا ہے، معزز ممبران کو یاد ہوگا کہ اولا اس عمارت کی دونوں منزلوں کی تعمیر کی اجازت مل گئی تھی بعد میں اوپر کی منزل کی اجازت تعمیر منسوخ کر دی گئی ساتھ میں منزل زیریں کے جنوبی بلاک کی تعمیر شروع نہ کرنے کا زبانی مشورہ دیا گیا، مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقدہ ۵/مئی ۱۹۷۸ء میں طے کیا گیا کہ جنوبی بلاک کی منزل زیریں کی تعمیر کی اجازت منسوخ نہیں ہوئی ہے اس لئے اس بلاک کی تعمیر فوراً کر لی جائے چنانچہ جب تعمیر ہو گئی تو منزل بالائی کی تعمیر کی اجازت کا معاملہ موجودہ حکومت کے سامنے پیش کر دیا گیا تھابالآّخر خدا کے فضل وکرم سے مئی ۱۹۷۸ء میں منزل بالائی کی تعمیر کی منظوری حکومت سے ہو گئی، مگر میونسپل کارپوریشن سے بھی ضابطہ کی اجازت بحال کرنے کی منظوری حاصل کرنا ضروری تھا، قبل اس کے کہ میونسپل کارپوریشن کی اجازت حاصل ہو امیر دار العلوم کی سفر انگلستان پر روانگی ہو گئی روانگی کے بعد میونسپل کارپوریشن سے بھی باضابطہ اجازت حاصل ہو گئی۔
تعمیر کی اجازت تو حاصل ہو گئی لیکن سوال یہ تھا کہ مصارف تعمیر کا انتظام کیونکر کیا جائے، تعمیر تاج مارکیٹ کے لئے جو پانچ لاکھ روپیہ قرض حاصل کیا گیا تھا وہ منزل زیریں کی تعمیر میں خرچ ہو چکا تھا دار العلوم کے پاس اس قدر رقم نہ تھی کہ منزل بالائی کی تعمیر کے مصارف (جو پانچ لاکھ کے قریب متوقع تھے) کے لئے بھی کافی نہ تھی، ایک طرف یہ دشواریاں تھیں اور دوسری طرف یہ ضروری تھا کہ منزل بالائی کی تعمیر جس طرح بھی ممکن ہو فوراً کر لی جائے ورنہ اگر خدانخواستہ یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا یا کوئی انقلاب آگیا تو پھر منزل بالائی کی تعمیر کا کام غیر محدودمدت کے لئے معرض التواء میں پڑجانے کا اندیشہ تھا ایک مشکل یہ تھی کہ امیر دار العلوم کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ لوگ جو بھوپال میں دار العلوم کے کاموں کی انجام دہی کے ذمہ دار تھے کوئی بڑا اقدام اٹھانے میں متردد تھے لیکن تمام ترددات پر یہ داعیہ غالب آیا کہ بالائی منزل کی تعمیر بہرصورت پایہ تکمیل کو پہنچنا چاہیے، دار العلوم تاج المساجد کے اغراض ومقاصد میں ایک شق حسب ذیل ہے “ “تاج المساجد کا عام انتظام اور خود اس کی تعمیر وتکمیل نیز اس کے لئے جائیداد موقوفہ کی تعمیر اس کا ضروری انتظام اور جدید اوقاف وآمدنیات کا حصول وانتظام۔
“”اس طرح جائیداد وقفیہ متعلقہ تاج المساجد کی تعمیر پر دار العلوم کی رقم خرچ کرنا دستور العمل دار العلوم تاج المساجد کے عین مطابق تھا چنانچہ مجلس امارت دار العلوم کے ان ممبروں سے جو بھوپال میں موجود تھے قائم مقام امیر دار العلوم نے مشورہ کیا اور یہ رائے قرار پائی کہ تعمیر منزل بالائی تاج مارکیٹ کے لئے جس قدر رقم کی ضرورت ہو وہ دار العلوم کے مجموعی فنڈ سے بطور قرض لے کر خرچ کی جائے اور اس کا حساب علیحدہ رکھا جائے، تاج مارکیٹ سے آمدنی ہونے پر اس رقم کا جو مجموعی فنڈ سے بطور قرض لے کر خرچ کی گئی ادائی کر دی جائے “۔
سلطانیہ روڈ کی سمت میں دوکانات کی تعمیر
سال ۱۹۸۰ء میں ٹھیلے والی سڑک کی دوکانات کی تعمیر کا کام مکمل ہو گیا، حکومت مدھیہ پردیش سے پٹہ کے معاہدہ میں یہ طے ہوا تھا کہ دوکانات پہلے مرحلہ میں ٹھیلے والی سڑک پر تعمیر ہوں گی، اس کی تکمیل کے بعد سلطانیہ روڈ (رائل مارکیٹ کے سامنے) کی سمت دوکانات تعمیر کی جائیں گی، اسی لئے جب ادھر کا کام مکمل ہو گیا تو دوسری سمت کا کام شروع کرنے کی بابت کارروائی کی ابتداء ہوئی اس ضرورت کی جانب ۱۲/جنوری ۱۹۸۱ء کی مجلس شوریٰ میں یادداشت پیش کی گئی:
”احاطہ تاج المساجد کی آراضی کی بابت جو معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق سب سے پہلے میدان واقع جانب جنوب تاج المساجد کے مشرق میں ٹھیلے والی سڑک کی جانب دوکانیں تعمیر کرنا اور اس کے بعد میدان مذکور کے جنوب میں سلطانیہ روڈ کے کنارے رائل مارکیٹ کے سامنے دوکانیں تعمیر کرنا طے ہوا تھا، ٹھیلے والی سڑک کے کنارے پر الحمد للہ دوکانیں تقریباً مکمل ہو چکی ہیں نیز بالائی منزل بھی بن چکی ہے تحت معاہدہ اب سلطانیہ روڈ پر بجانب رائل مارکیٹ دوکانیں تعمیر ہونے کی ضرورت ہے، جس طرح تاج مارکیٹ کی تعمیر کے لئے دار العلوم کے مجموعی فنڈ سے بطور قرض رقم حاصل کر کے تعمیری کام کرایا گیا اسی طرح سلطانیہ روڈ کی جانب دوکانوں کی تعمیر کے لیےکیا جائے“۔
اس حصہ میں دوکانات تعمیر کرنے کے سلسلہ میں بھی بہت سی دشواریاں اور رکاوٹیں پیش آئیں لیکن مولانا مرحوم کی دعاؤں، ان کی اور ان کے ساتھیوں کی جد و جہد سے تمام مسائل حل ہوتے گئے، ۵/مئی ۱۹۷۷ء کی مجلس شوریٰ میں تعمیر دوکانات کا تذکرہ آیا ہے :
”احاطہ تاج المساجد بھوپال میں بہ جانب جنوب سلطانیہ روڈ پر دوکانوں کی تعمیر کے سلسلہ میں جو دشواریاں پیش آئیں اور جس طرح وہ دشواریاں حل ہو ئیں ان کی مختصر کیفیت صدر صاحب نے حاضرین کو بتائی“۔
مجلس امارت کی کارروائیوں کی توثیق بھی اسی جلسہ میں کرائی گئی جس میں ایک کارروائی ان دوکانات سے متعلق تھی:
”احاطہ تاج المساجد کے اندر تاج المساجدکے جنوب میں سلطانیہ روڈ پر جو دوکانیں تعمیر ہو رہی ہیں ان کے بابت ۵/مئی ۱۹۷۷ء کو حسب ذیل امور طے کئے گئے بعد اجتماع فوراً تعمیر کا کام شروع کر دیا جائے“۔
دوکانات کرایہ پر کسے دی جائیں
ہر کام مجلس شوریٰ ومجلس امارت کی منظوری سے تمام قواعد کے تحت کیا گیا تاکہ اس میں کوئی غلط یا ناجائز لین دین نہ ہو یہ مولانا کا سلیقہ اور اہتمام تھاکہ وقتا فوقتا کرایہ داروں اور کرایہ داری کی تفصیلات مجلس شوری کے جلسوں میں پیش کی جاتی رہیں چنانچہ ۲۸/دسمبر ۱۹۸۱ء کی شوریٰ میں حسب ذیل تفصیل پیش کی گئی:
طے ہوا کہ سلطانیہ روڈ پر جو دوکانیں تعمیر ہو رہی ہیں ان کی کرایہ داری کے سلسلہ میں فی دوکان پندرہ ہزار روپیہ بطور سیکورٹی ڈپازٹ اور فی دوکان پانچ ہزار روپیہ بغرض تکمیل تعمیر بطور پیشگی کرایہ داران سے حاصل کئے جائیں ان دوکانوں کا کرایہ ۸۰۰ روپے سے ۱۰۰۰ روپیہ ماہانہ تک مقرر کیا جا سکتا ہے۔
طے ہوا کہ اگر ان دوکانوں کی تعمیر میں جو سلطانیہ روڈ پر تعمیر ہو رہی ہیں کوئی صاحب معقول عطیہ دیں تو ان کی سیکورٹی ڈپازٹ کی رقم میں مناسب رعایت کی جا سکتی ہے اسی طرح مجلس امارت نے اپنے جلسہ منعقدہ ۸/مارچ ۱۹۸۲ء میں دوکانوں کی کرایہ داری کے سلسلہ میں کچھ اصول طے کئے اور پھر مجلس شوریٰ کے جلسہ منعقدہ ۲۷/دسمبر ۱۹۸۲ء میں ان کی توثیق ہوئی ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
”دوکانوں کی کرایہ داری کے لئے یہ صورت اختیار کی گئی کہ اردو، ہندی اور انگریزی اخبارات میں اشتہار دے کر درخواستیں طلب کی گئیں، ان درخواستوں پر مجلس امارت نے غور کیااس کام میں جناب عبد الرؤوف خاں صاحب (مالک احد برادرس) نے اپنے قیمتی مشوروں سے پوری اعانت فرمائی، مجلس امارت نے درخواستوں کی فہرست پر غور کر کے پچاس ساٹھ معتدل، قابل اعتماد اور صاحب حیثیت خواستگاران کا انتخاب کیا ان منتخب لوگوں کو خط ارسال کیا گیا جس میں وضاحت تھی کہ عام شرائط کرایہ داری کی پابندی کرنی ہوگی“۔
تعمیر سلیمان ہال
”بزم سلیمان“یعنی علامہ سید سلیمان ندوی کی صد سالہ یادگارپر دار العلوم میں ایک سمینار ۴ تا۶ ستمبر ۱۹۸۵ء منعقد کیا گیا تھا ، اس سمینار میں جو تجاویز پاس ہوئیں ان میں سے ایک اہم تجویز ، تجویز نمبر ۱۲ تھی”دار العلوم تاج المساجد سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ سید صاحب کی یادگار کے طور پر ایک کتب خانہ سلیمانیہ تعمیر کرے“۔
مولانا کیونکہ عملی انسان تھے اور اس سمینار کی دعوت بھی انہوں نے ہی دی تھی اس لئے تجویزوں پر عمل کرنے میں انہوں نے اپنی ذمہ داری محسوس کی اور وفات سے پہلے سلیمان ہال ولائبریری کا کام شروع کر دیا گیا تھا بالآخر یہ منصوبے کے مطابق پایہ تکمیل کو پہنچا۔
جدید دار الاقامہ کی تعمیر
دار العلوم تاج المساجد کے تعلیمی نظام کی ترقی وتوسیع اور طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مد نظر ایک نئی بورڈنگ کی تعمیر کی ضرورت محسوس کی گئی، مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقدہ ۱۹/اپریل ۲۰۱۵ء میں ایسے دار الاقامہ کی ضرورت کی تجویز پیش کی گئی جو جدید وسائل اور طلبہ کی ضروری سہولیات سے آراستہ ہوچنانچہ دار العلوم میں مسجد سے ملحق شمال میں تالاب کے کنارے دار الاقامہ کی ایک نئی بلڈنگ تعمیر کرانے کی یہ تجویز منظور کی گئی،۲۲/جنوری ۲۰۱۷ء کو اس وقت کے امیر جناب پیر سعید میاں مجددی مرحوم کے دست اقدس سے اس منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا، اس بلڈنگ کا نقشہ اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ احاطۂ دار العلوم میں واقع گہرے گڈھے میں بلڈنگ کی دو منزلیں رہیں تاکہ عظیم الشان تین منزلہ بلڈنگ ہونے کے باوجود مغربی سمت سے مسجد کے سنگین پتھروں کے نظارے کو نہ روک سکے۔
یہ عمارت ۷۱۳۱۵مربع فٹ کے رقبہ پر تعمیر کی گئی ہے اس کی ہر منزل میں جدید طرز کا نگراں کا ایک کمرہ، طلبہ کے لئے تمام سہولیات سے آراستہ بڑے ہال، ۴۰ بیت الخلا ء بنائے گئے ہیں، مزید خوبصورت لکڑی کی کھڑکیاں، خوشنما فرش اور بہترین ڈیزائن اس بلڈنگ کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا ہے،اس عمارت کے مکمل ہونے پر ۶۰۰ طلبہ تمام سہولیات کے ساتھ آرام سے رہ سکیں گے،ماہرین نے اس عمارت کی تعمیر کا تخمینہ تقریباً ۸ کروڑ لگایا ہے۔
قدیم ڈی پی آئی کی جگہ کا حصول
تاج المساجد کے مغرب میں واقع بغیہ اور ڈی پی آئی کے دفاتر کا حکومت سے گفتگو میں مطالبہ کیا گیا تھا کیونکہ اصلا یہی جگہ مدرسہ جہانگیریہ کی شاہجہاں بیگم کے زمانے میں ملکیت تھی جس میں طلبہ قیام کرتے تھےلیکن جب مسئلہ فائنل ہوا تو حکومت نے یہ جگہ اور عبیدیہ اسکول دینے سے انکار کر دیا، مشورہ میں یہ بات طے پائی کہ فی الحال جو آراضی بھی حاصل ہو رہی ہیں ان کو لے لیا جائے باقی کے لئے کوششیں جاری رہیں۔
جناب ابراہیم قریشی صاحب اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین کے ذہن میں یہ پلان آیا کہ تمام مسلم ادارے اسی کیمپس میں منتقل کر دیئے جائیں تو پولیس اور پیرا ملٹری فورس کے وہاں قیام کا خطرہ بھی ٹل جائے گا اور مسلمانوں کے تمام ادارے ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں گے،موصوف بہت ذہین و فطین اور مسلمانوں کے مسائل سے حقیقی ہمدردی رکھنے والے تھے ۔
آخر کار ڈی پی آئی کی خالی زمین اور اس کے خستہ حال پندرہ کمرے جن پر سیمنٹ کی چادریں تھیں وہ دار العلوم کو حاصل ہو گئیں ، باقی بڑی اہم عمارتیں، وقف بورڈ، متولی کمیٹی اور حج کمیٹی کو عنایت کر دی گئیں اس طرح مسلمانوں کے تمام دفاتر ایک ہی جگہ قائم ہو گئے۔
تاج المساجد کے ارد گرد جنوبی وشمالی میدان
تاج المساجد کے جنوب میں ایک میدان واقع ہے جس کی مساحت۲/ایکڑ ہے اسی طرح شمال میں بھی ایک میدان ہے جس کی مساحت ۲/ایکڑ ہے دار العلوم کو یہ میدان ۲۵ سال تک گورنمنٹ سے مقدمہ بازی کے بعد گورنمنٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کے تحت لیز پر تیس سال کے لئے علامتی کرایہ پر حاصل ہوئے تھے اب دوبارہ ۲۰۰۴ء میں مزید ۳۰ سال کی توسیع ہو گئی ہے، دار العلوم نے جنوبی میدان میں دوکانیں تعمیر کرائی ہیں جو معتد بہ آمدنی کا ذریعہ ہیں، ان دوکانوں کی بالائی منزل پر دار العلوم اور اجتماعات کے ہال تعمیر کرائے گئے ہیں ، ایک باؤنڈری کے ذریعہ دار العلوم کو چاروں طرف سے گھیر دیا گیا ہے۔شمالی میدان میں طلباء کے لئے بورڈنگ بنائی گئی ہے۔
دار العلوم کی مغربی سمت میں بھی ایک میدان مسجد سے ملحقہ ہےجو ۱۹۹۷ء میں حکومت سے حاصل ہو گیا ہے اس کی مساحت ڈیڑھ ایکڑ ہے، اس میدان میں طلباء کے لئے دار الاقامہ اور انڈور روم (گیم روم) وغیرہ بھی بنوا دیا گیا ہے اس طرح دار العلوم تاج المساجد وسیع دینی درسگاہ بن گیا ہے۔
تاسیس دار العلوم تاج المساجد اور مولانا محمد عمران خاں صاحب
یکم جون ۱۹۴۹ء کو نواب حمیداللہ خاں کے زمانہ میں ریاستِ بھوپال انڈین یونین میں ضم ہو گئی، ہندوستان ایک آزاد جمہوری حکومت بنا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہاں کہ تمام فرقے اور افراددین و تہذیب، مذہب و مسلک اور معاشرت و معاملات میں آزاد اور خود مختار ہوں گے، ان کو اپنی دینی و ملی خصوصیات اور تعلیمی وثقافتی انفرادیت کی بقا اور استحکام کا پورا حق حاصل ہوگا کیونکہ قومی سیکولر حکومت ملک کے تمام فرقوں کے لئے الگ الگ دین اور عقیدے کے مطابق تعلیم کا نصاب اور نظام جاری نہیں کر سکتی تھی، قدرتی طور پر سیکولر نظام کا یہ نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کے تمام دینی ومذہبی مناصب، ادارے اور تعلیمی مراکز اپنی حفاظت اور بقاء کے خود ذمہ دار ہوں حالانکہ ریاستِ بھوپال کے زمانہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے رفاہی اور مذہبی امور کے مصارف ریاست کی طرف سے ادا ہوتے تھے، سیکولر حکومت کا تقاضہ تھا کہ سرکار تمام انسانوں کو عام انسانی حقوق وعلوم میں مساوی درجہ بخشے اور تمام مذاہب وملل اپنی دینی تعلیم، اپنی مقدس کتاب کی اشاعت اور مذہبی شعائر ورسوم اور اپنے مخصوص علمی وفکری اثاثہ کی حفاظت خود کریں انہیں سب وجوہات کی وجہ سے آزادیِ ہند کے بعد سے ہی عصری تعلیم کو عام کرنے کی بھرپور سعی وکوشش کی جانے لگی اور مذہب سے غفلت و بیزاری پیدا ہونا شروع ہو گئی۔
ملک کے یہ حالات تھے جن کی طرف سے ہر درد مند اور اہلِ فکر دیندار مسلمان خطرہ محسوس کر رہا تھا، یہ احساس شدید ہوتا جا رہا تھا کہ اگر مسلمانوں نے اپنا دینی تعلیمی نصاب مرتب کر کے نافذ نہ کیا تو ان کی آئندہ نسل دین سے یکسر غافل، خدا پرستی سے بیگانہ اور اپنے مذہبی ورثہ سے ناآشنا ہو جائے گی کیونکہ عصری تعلیم کے بعد ہم خواندہ تو بن جائیں گے لیکن خدا پرستی اور وحدانیت سے غافل ہو جائیں گے۔
اس فکر و احساس کے ما تحت حضرت مولانا محمد عمران خاں صاحب ندوی ازہریؒ نے جو اس وقت دار العلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم تھے اور اپنی علمی لیاقت سے یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ اچانک ایک عظیم تاریخ انقلاب اور علمی و دینی اداروں سے حکومت کی سر پرستی اٹھ جانے سے قومیں چند ہی دنوں میں مایوسی کا شکار ہو جاتی ہیں اور غیر محسوس طریقہ پر اپنی فکری بنیادوں اور علمی ودینی ورثہ سے محروم ہو جاتی ہیں۔
مولانا محمد عمران خاں صاحب ندوی ازہریؒ نے اپنی بے چینی اور فکر کو اپنے استاد علامہ سید سلیمان ندویؒ کے سامنے پیش کیا، سید صاحب مولانا کی علمی وتنظیمی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف تھےلیکن دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ بھی اس وقت بے شمار ملی ومالی پریشانیوں سے دو چار تھااسی کشمکش کو فرو کرنے کے لئے مولانا علی میاں صاحبؒ کے اصرار پر سید صاحب اور حضرت صاحبؒ (شاہ محمد یعقوب صاحب مجددی) نے نصف ماہ لکھنؤ اور نصف ماہ بھوپال رہنے کی ایک ایسی انوکھی راہ نکالی جس سے مولانا بھوپال میں ایک دینی وتعلیمی مرکز قائم کرنے کی پوزیشن میں ہو گئے۔
سال ۱۹۴۸ء ۔ ۱۹۴۹ء سے ہی ایک دینی ادارہ قائم کرنے کی کوششیں شروع ہو چکی تھیں اسی دوران سید سلیمان ندوی کی صدارت میں جامع مسجد بھوپال میں علماء وفضلاء بھوپال کا ایک جلسہ منعقد ہوا، جس میں حضرت مولانا محمد عمران خاں صاحب کی سرکردگی میں ندوہ کے طرز پر ایک دار العلوم قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا یہ ادارہ مسجد شکور خاں میں یکم جون ۱۹۴۹ء قائم ہو گیا اور دار العلوم بھوپال اس کا نام تجویز ہوا۔
تیرا ماہ وہاں قائم رہنے کے بعد ۴/شوال ۱۳۶۹ھ مطابق ۲۰/جولائی ۱۹۵۰ء کو بھوپال کی عظیم تاریخی مسجد تاج المساجد میں باقاعدہ افتتاح ہوا جس میں تمام علماء اور عوام کے ایک بڑے طبقہ نے شرکت کی اور دار العلوم تاج المساجد کے نام سے موسوم ہوا حضرت مولانا محمد عمران خاں صاحب ندوی ازہریؒ نے اس کی خدمت لوجہ اللہ بغیر کسی اجرت یا تنخواہ کے انجام دی اور یہ چھوٹا سے پودا ان کے سایہ میں ایک بہت بڑا سایہ دار اور ثمر آور درخت بن گیا۔
”بانیِ دار العلوم نے اس کے نصابِ تعلیم اور نظامِ تربیت میں اس بات کا پورا خیال رکھا کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہوکیونکہ اسلام انسانی ہدایت کا دستور العمل ہے اور قیامت تک آنے والی نسلوں کے فکری ارتقاء، عملی ترقی، سائنسی ایجادات اور ذہن میں آنے والے سوالات کا حل اور جواب اس میں موجود ہے اس لئے اسلام کے اصولوں میں تو کسی قسم کی تبدیلی نہیں لیکن فروعی وجزوی چیزوں میں تغیر پذیر دنیا کے حالات کے مطابق اس میں نمو پذیر صلاحیت موجود ہےیہی وہ بنیاد تھی جس پر ندوۃ العلماء کی بنیاد پڑی تھی اور دار العلوم تاج المساجد میں بھی یہی فکر الحمدللہ جاری وساری ہے“۔
دار العلوم نے پہلے دن سے ہی تین اہم کاموں کی ذمہ داری قبول کی اور اپنے حوصلے بھر انہیں پورا کرنے میں مسلسل لگا ہوا ہے۔
تعلیم
جس میں شعبہ حفظ کا باقاعدہ نظام قائم ہے اور مکتب، ثانویہ اور عالمیت تک عربی کے درجات ہیں، دینی تعلیم کے ساتھ ہندی اور انگریزی زبان اور علومِ جدیدہ کے مبادی بھی نصاب میں داخل ہیں، شعبۂ حفظ، مکتب ،ثانویہ اور عالمیت سے سینکڑوں لڑکے فارغ ہو کر حافظ ومولوی وعالم بن چکے ہیں۔
مصری مبعوث کی آمد
مولانا عمران خاں صاحب ندوی ازہریؒ کا جامعہ ازہر سے بڑا گہرا تعلق تھا وہ پہلے ایسے شخص تھے جو ہندوستان سے جامعۃ الأزھر تعلیم حاصل کرنے ہی نہیں گئے بلکہ باقاعدہ وہاں تخصّص کی پوسٹ گریجویٹ ڈگری حاصل کی ورنہ اس سے پہلے جو طلبہ جاتے تھے ان کو عربی میں کم مہارت کی وجہ سے نسبتاً ایک چھوٹی ڈگری عالمیۃ الغرباء (بیرونی طلبہ کی عالمیت) دی جاتی تھی، مولانا مرحوم نے اپنی کوشش ومحنت اور صلاحیت کی بنیاد پر نہ صرف تخصص میں داخلہ لیا بلکہ بہت اچھے نمبروں سے اول پوزیشن حاصل کر کے اپنا مقام بنایا اور اسی وجہ سے جامعۃ الأزہر نے ان کو اپنے خرچ پر حج کے لئے بھیجا۔
اسی دیرینہ تعلقات کی بنا پر جب مولانا مرحوم ۱۹۶۸ء میں لیبیا اور افریقہ کے دورہ پر گئے تو مصر بھی تشریف لے گئے ، جامعۃ الأزہر کے شیخ حسن مأمون نے ان کا شاندار استقبال کیا، ملاقات میں مولانا نے خواہش ظاہر کی کہ ایک ازہری استاد ضرور دار العلوم بھیجا جائے ، الحمد للہ یہ کوشش بارآور ہوئی اور ایک نہایت لائق ، باصلاحیت ازہری نوجوان عالم شیخ محسوب احمد ابراہیم النجار ازہر کے تعلیمی نمائندے بن کر بھوپال تشریف لائے ان کی محنت سے دار العلوم کے طلبہ میں جدید عربی کی تحصیل میں ایک نیا ولولہ اور شوق پیدا ہوا، شیخ نے عربی بولنے اور لکھنے کے جدید طریقوں سے طلبہ میں نئی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا، وہ کئی برس تک رہے اور اپنے حسن اخلاق سے دار العلوم ہی نہیں اہل بھوپال کا دل بھی جیت لیا اور مولانا کی اس آرزو کی تکمیل بھی کی کہ دار العلوم کو بین الاقوامی درجہ حاصل ہو۔
وہ دار العلوم جو بہت ہی چھوٹے پیمانہ پر شروع ہوا تھا جس میں صرف سات طالب علم اور دو اساتذہ تھے قلیل مدت میں وہ صوبہ کا اہم ترین تعلیمی مرکز بن گیا، تبلیغ اور ندوہ سے تعلق نے اس کو منفرد شان عطا کی اور یہ سب درحقیقت اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اسکے ایک مخلص بندے کی للّہیت، خلوص اور تعلق مع اللہ کی وجہ سے ہوا، اس دار العلوم سے بلاشبہ سینکڑوں طالب علم اور حفاظِ کرام فارغ ہو کر نکلے اور اب وہ مختلف میدانوں میں خدمت سر انجام دے کر دار العلوم کا نام روشن کر رہے ہیں۔
اہم کانفرنسیں
اجلاس ورکنگ کمیٹی آل انڈیا طبّی یونانی کانفرنس (۱۶۔ ۱۷/مارچ ۱۹۷۴ء)
ہندوستان میں مسلمانوں کے علوم وفنون کی عظمت کی ایک نشانی علم وفنِ طب بھی ہےوقت کے ساتھ اس کی عظمت پر غفلت کی گرد جمنے لگی،اس آئینہ کو صاف کرنے کے لئے آل انڈیا طبّی یونانی کانفرنس مسلسل کوشاں رہی، اس کی ورکنگ کمیٹی نے طے کیا کہ اس کا ایک اجلاس بھوپال میں ہواور بھوپال میں تاج المساجد کی مرکزیت کی بنا پر اس کے اجلاس وہیں ہوں، اس لئےان حضرات نے دار العلوم کے ذمہ دار حضرات سے رابطہ قائم کیا تو مولانا نے اس کے انعقاد کو خوش آمدید کہا یہ اجلاس بر صغیر کے نامور حکیم عبد الحمید صاحب متولی ہمدرد (وقف) کی صدارت میں ہوا، ۱۷/مارچ کو یونانی علاج کے فروغ پر کانفرنس کے جلسہ کی صدارت بھی حکیم عبد الحمید صاحب نے کی۔
اس کانفرنس میں غالبا پہلی بار ہندوستان کے تمام اطباء جمع ہوئے بھوپال میں ابھی قدیم طب کے آثار باقی تھے یہاں کے اطباء نے بڑی تعداد میں اس میں شرکت کی عرصہ تک اس کانفرنس کا تذکرہ رہا شرکاء نے یہ اہم قرارداد منظور کی کہ حکومت مدھیہ پردیش کو یونانی طریقۂ علاج کے فروغ کے لئے کوشش کرنا چاہیے، تمام شرکاء نے دار العلوم کے حسنِ انتظام کو سراہا اور اس کانفرنس کے انعقاد پر شکریہ ادا کیا اور کامیابی پر مبارکباد دی، اس کانفرنس کی ہی برکت ہے کہ مدھیہ پردیش میں یونانی شفاخانوں کا وجود ہندوستان کے دوسرے صوبوں سے زیادہ اور حکیموں طبیبوں کی تعداد سرکاری دواخانوں میں نمایاں نظر آتی ہے اس کانفرنس کو کامیاب بنانے میں مولانا سلمان خاں صاحب پیش پیش تھے۔
اجلاس ہفتم آل انڈیا اسلامک اسٹڈیز کانفرنس (۱۱۔۹ ستمبر ۱۹۷۴ء)
اسلامک اسٹڈیز کانفرنس کی بنیاد ۱۹۵۸ء میں مسلم یونیورسٹی علیگڑھ میں رکھی گئی اس وقت سے عموماً ہر دو سال کے وقفہ سے اس کے اجلاس منعقد ہوتے رہے ۱۹۵۸ء/۱۹۶۰ء/۱۹۶۲ء کے تینوں اجلاس علیگڑھ میں ہوئے، چوتھا اجلاس جامعہ عثمانیہ کی دعوت پر ۱۹۶۴ء میں حیدرآباد میں منعقد ہوا پانچواں اجلاس جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں ۱۹۶۷ء میں ہوا چھٹا اجلاس دار المصنفین اعظم گڑھ میں ۱۹۶۹ء میں ہوا ساتواں اجلاس دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں منعقد ہونا طے ہوا تھا لیکن بعض اسباب کی بنا پر چار سال تک ٹلتا رہا بالآخر منتظمینِ کانفرنس کے اصرار اور مولانا ابو الحسن علی میاں صاحبؒ کی سفارش پر مولانا مرحوم نے دار العلوم تاج المساجد میں اس کی میزبانی قبول کی اور اس کی تاریخیں ۹/۱۰/۱۱ ستمبر ۱۹۷۴ء طے ہوئیں۔
اس اجلاس میں ۵۵ علماء و دانشور شریک ہوئے کانفرنس کے صدر پروفیسر عبد العلیم صاحب اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے مولانا سید ابو الحسن علی ندوی صاحب نے کانفرنس کا افتتاح کیا مولانا محمد عمران خاں صاحب ندوی نے کلیدی خطبہ پیش کیا جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے۔
اس سہ روزہ اجلاس میں کل ۲۷/مقالے (۱۰ انگریزی ، ۹ اردو، ۶ عربی اور ۲ فارسی میں) پڑھے گئے ، ۱۱ ستمبر ۱۹۷۴ء کو اختتامی جلسہ ہوا پروفیسر سید مقبول احمد صاحب سکریٹری جنرل کانفرنس نے جہاں مولانا علی میاں اور تمام مندوبین کا شکریہ ادا کیا وہیں یہ کلمات مقبول بھی ان کی زبان سے ادا ہوئے جن کو مناجات مقبول بھی کہا جا سکتا ہے ایک عصری دانشور کی زبان سے مولانا مرحوم کی خدمات کا ایسا سچا تعارف اور خراج تحسین در اصل طبقہ علماء کے لئے خراج عقیدت تھا انہوں نے کہا :
”سر سید احمد کی تجویز ایک مدرسہ قائم کرنے کی تھی اور وہ ایک مدرسۃ العلوم کی حیثیت سے شروع ہواتھا لیکن ۱۹۲۰ء میں حالات ایسے پیدا ہوئے کہ اس کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا وہ دار العلوم مسلمانانِ ہند کے نام سےمشہور تھا اور اس میں اسلامی فلسفہ، علمِ کلام اور عربی زبان وادب کی تعلیم ہوتی تھی، یہی طرزِ عمل آج میں اس دار العلوم تاج المساجد کا دیکھ رہا ہوں اگر مولانا (محمد عمران خاں صاحب) کی توجہ برقرار رہی تو وہ دن دور نہیں کہ جب اس مسجد میں واقع یہ دار العلوم ایک عظیم الشان درسگاہ ہوگی اور وہ ہندوستان کے لئے باعثِ مسرت اور مسلمانوں کے لئے باعثِ فخر ہوگی اس وجہ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ مولانا عمران خاں صاحب ندوی نہ صرف “شاہجہانِ ثانی” ہیں بلکہ وقت کے “سر سید “بھی ہیں اور یہ درجہ بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے ہم لوگ تو محض پڑھنے پڑھانے والے لوگ ہیں تعلیم وتعلم اور درس وتدریس میں مشغول رہتے ہیں لیکن تعمیری کام کو نباہنا اور اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا بہت مشکل کام ہے، ہم نے علیگڑھ میں اس کانفرنس کے تین اجلاس کیے ہیں اور ہم کو بخوبی اندازہ ہے کہ اس قسم کی کانفرنسوں کے انعقاد میں کتنی انتظامی مشکلات، دقتیں اور پریشانیاں سامنے آتی ہیں لیکن ان تمام مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے جب اس کانفرنس کے حسنِ انتظام، سلیقہ اور کامیابی کو دیکھتے ہیں تو بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے اور اس کا سہرا بھی مولانا محمد عمران خاں صاحب کی معروف صلاحیتوں کو جاتا ہے “۔
آخر میں صدرِ جلسہ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی صاحب نے اجلاس کی کامیابی پر اپنی خوشی اور اطمینان کا اظہار فرمایا۔
اس اجلاس کو کامیاب بنانے میں ڈاکٹر مسعود الرحمٰن صاحب ندوی کا بڑا ہاتھ تھا انہوں نے اس سمینار کی کارروائی کو نشانِ منزل کے خصوصی شمارہ بیادگار اجلاسِ ہفتم آل انڈیا اسلامک اسٹڈیز کانفرنس کے ذریعہ محفوظ فرمادیا اس کی حیثیت اب ایک علمی دستاویز کی ہو گئی ہے۔
بزمِ سلیمانی صد سالہ سالگرہ علامہ سید سلیمان ندوی (بتاریخ ۴ تا ۶ /ستمبر ۱۹۸۵ء)
یہ سمینار جو علامہ سید سلیمان ندویؒ سے منسوب ہے ان کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر سمیناروں اور کانفرنسوں کی آخری کڑی تھا یہ اجلاس بھی سہ روزہ تھا جو ۴/ستمبر ۱۹۸۵ء سے شروع ہو کر ۶/ ستمبر کو ختم ہوا، علامہ سید سلیمان ندویؒ کی ذاتِ گرامی مشرقی تاریخِ علم وادب اور دین وحکمت کی ان چند ہستیوں میں سے ہے جن کی علمی، ادبی اور دینی وملی خدمات کے اعتراف میں نہ معاصرت کا حجاب حائل ہوا نہ ان کے بعد ان کی قدردانی میں کمی آئی بلکہ زمانہ کے گذرنے کے ساتھ ساتھ عقیدت ومحبت اور تشکر وممنونیت کے احساسات وجذبات کی تپش دو چند ہو گئی جس کے مخلصانہ پر جوش اظہار کی صدائے بازگشت ان کی ولادت کی پہلی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر نظر آئی جب بر صغیر ہی میں نہیں بلکہ فرانس میں بھی ان کی خوشگوار یاد کے لئے تقریبوں کا اہتمام کیاگیا،پاکستان میں اس سلسلہ میں کئی تقاریب منعقد کی گئیں اسی طرح فرانس میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب (جو سید صاحب سے بہت متاثر تھے) کی تحریک پر کئی تقاریب ہوئیں کئی مجلسوں اور جلسوں میں بر صغیر نژاد باشندوں نے شرکت کی اسی طرح فرانس کے سرکاری ٹیلیوژن پر علامہ مرحوم کے علمی وادبی کارناموں پر ایک خوبصورت پروگرام پیش ہوا۔
ہندوستان میں ان تقریبات کے آغاز کا سہرا علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے سر بندھا چنانچہ ۲۵/نومبر ۱۹۸۳ء کو ایک دو روزہ مجلسِ مذاکرہ ترتیب دی گئی، اس کے بعد بہار اکیڈمی نے ایک سہ روزہ سمینار یکم تا ۳/دسمبر ۱۹۸۴ء کو پٹنہ میں منعقد کیا،اسی مبارک سلسلہ کی تیسری دو روزہ تقریب”کل ہندانجمنِ ترقیِ اردو “کے زیرِ اہتمام اردو گھر دہلی میں ۹ تا ۱۰/مارچ ۱۹۸۵ء منعقد ہوئی۔
صد سالہ سالگرہ پر کل ہند تقریبات کا حسنِ اختتام دار العلوم تاج المساجد بھوپال کے زیرِ اہتمام سہ روزہ بزمِ سلیمانی ۴ تا ۶/ستمبر ۱۹۸۵ء کا علمی وادبی جشن تھا جو علامہ مرحوم کے شاگردِ رشید مولانا محمد عمران خاں صاحب ندوی مرحوم کی دعوت پر منعقد ہوا، سعادت مآب عمرو موسیٰ (سفیر عرب جمہوریہ مصر متعینہ ہند) خصوصی مہمان تھے ، عالی جناب سید ہاشم علی (وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علیگڑھ) نے بزم کا افتتاح کیا اور جناب سید صباح الدین عبد الرحمن ناظم دار المصنفین نے کلیدی مقالہ پیش کیا۔
یہ تقریب دراصل طبقۂ علماء کی طرف سے علامہ مرحوم کی ناقابلِ فراموش علمی، ادبی، دینی اور ملی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے منعقد ہوئی تھی لیکن دیگر طبقاتِ اہلِ علم ومکاتبِ فکر کی بھر پور نمائندگی اس کا نمایاں وصف تھی اس یادگار بزم کے لئے پچاس اہلِ قلم نے بیش قیمت مقالے لکھے جو زیادہ تر علوم و فنونِ سلیمانی کو اجاگر کرنے کے لئے وقف تھے۔
اس مبارک موقع پر ایک شاندار نمائش کا انتظام بھی کیا گیا تھا جس کا انتظام سیفیہ کالج کے مشہور استاد پروفیسر عبد القوی دسنوی کے ذمہ تھا افتتاح خانقاہِ مجددیہ کے فاضل سرپرست اور بعدہ امیر دار العلوم مولانا محمد سعید صاحب مجددی نے فرمایا اس میں علامہ مرحوم کی تصنیفات وتالیفات، خطوط وفتاوے، عدالتی فیصلوں اور ان پر دوسرے اہلِ علم کی لکھی ہوئی مؤلفات کو جمع کیا گیا تھا ان کے بارے میں مشاہیر اہلِ علم وادب اور سیاست کی آراء خوبصورت رنگین کتبات کی شکل میں آویزاں کی گئی تھیں۔
اس سمینار میں دار المصنفین اعظم گڑھ، دار العلوم ندوۃ العلماءلکھنؤ، مسلم یونیورسٹی علیگڑھ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، بھوپال یونیورسٹی اور بھوپال کے دیگر علمی مراکز کے فضلاء شریک ہوئے۔ مقالات کی نشستوں کا آغاز ۴/ستمبر ۱۹۸۵ء بعد نمازِ ظہر ہوا اور۵/ ۶/ ستمبر کو صبح وبعد نمازِ ظہر دو دو نشستیں ہوئیں اس طرح پانچ نشستوں میں کل ۳۰مقالات پیش ہوئے ابتداء میں کافی وقت مباحثات کی نذر ہوا باقی ۲۰ مقالات پڑھے نہیں جا سکے لیکن بزم کی کارروائی میں داخل کر لیے گئے۔
مقالات کے موضوعات کا تنوع اور ان کے علمی وتحقیقی معیار کا اندازہ اس سمینار کے مطالعہ سلیمانی سے لگایا جا سکتا ہے تینوں دن ہر نشست میں تمام مندوبین اور مقامی اہلِ فکر ونظر جس مستعدی اور پابندی سے شریک ہوتے رہے جس شوق وانہماک سے مقالات سنتے اور مباحثات میں حصہ لیتے رہے وہ عام یا رسمی قسم کے سمیناروں میں کم دیکھنے کو ملتا ہے، تیسرے دن کی نشست کے صدارتی فرائض انجام دیتے ہوئے مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے وائس چانسلر جناب سید ہاشم علی صاحب کے الفاظ بجا طور پر تمام شرکاء کے احساس کے ترجمان تھے:”مقالات ان تمام موضوعات پر محیط تھے جن کا تعلق سید صاحب کے علمی ودینی کارناموں، قومی وملی سیاست، شعر وادب اور شخصیت سے ہو سکتا ہے اگرچہ غالب رجحان ان کے علمی کارناموں کو نمایاں کرنے کی طرف تھا“۔
مولانا مرحوم پر اس سمینار کے انعقاد کا بڑا غلبہ تھا اگرچہ صحت اس بات کی متحمل نہ تھی لیکن سید صاحب سے عقیدت وتعلق کا تقاضہ تھا کہ جلد سے جلد یہ بزم منعقد ہو، چنانچہ باوجود کمزوری اور خرابیِ صحت کے مسلسل ہر بات کی نگرانی اور ہر بات کا اہتمام فرماتے رہے۔
پروفیسر مسعود الرحمٰن خاں ندوی ازہری (سابق چیرمین ویسٹ ایشین اسٹڈیز، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی) صاحب کارگذاریِ بزم میں تحریر فرماتے ہیں: ” عمِ محترم مولانا محمد عمران خاں صاحب ندوی ازہری کی قدم بقدم رہبری ورہنمائی کا ذکرتحصیلِ حاصل ہے کہ صحت کی موجودہ حالت میں بھی ان تینوں دنوں میں آپ نے خود ان کی بلند حوصلگی وعالی ہمتی کے جیتے جاگتے مظاہرے دیکھے حقیقت یہ ہے کہ اس بزم کا انعقاد سراسر ان کے قلبی تقاضے کا مرہونِ منت ہے جس کا بوجھ ان کے دل ودماغ پر مہینوں سے تھا اور جس نے آخر میں اتنی شدت اختیار کر لی کہ اس میں مزید تاخیر ممکن نہ تھی “ ۔
پروفیسر مسعود الرحمٰن صاحب جو ناظمِ بزم تھے اس سمینار کو ترتیب دینے اسے منعقد کرانے اور کامیابی سے اسے اختتام تک پہنچانے میں ان ہی کا ہاتھ رہا ہے اس کے علاوہ بھی جتنے علمی سمینار اور کانفرنسیں ہوئیں ان میں مولانا مرحوم کے بعد اگر کامیابی کا سہرا کسی کے سر باندھا جا سکتا ہے تو وہ مسعود الرحمٰن صاحب ہی ہیں اسی لئے مولانا مرحوم نے اس سمینار کا ناظم انہی کو بنایا اور انہوں نے دن رات محنت کر کے اس سمینار کو کامیابی سے ہمکنار کیا اسی لئے رودادِ بزم کے مرتِب پروفیسر اقبال احمد انصاری نے “رودادِ بزم” میں بالکل صحیح تحریر فرمایا ہے: ”جب ڈاکٹر مسعود الرحمٰن خاں ندوی (ناظمِ بزم) اپنی رپورٹ پڑھنے کھڑے ہوئے تو تمام شرکاء وحاضرین کو احساس تھا کہ داعیِ بزم کے عزم وحوصلہ کے بعد بزم کی کامیابی میں ان کی مساعی وسلیقہ کا بڑا دخل ہے“۔
دار العلوم تاج المساجد بھوپال میں رابطہ ادب اسلامی کی ساتویں سالانہ علمی کانفرنس (بتاریخ ۱۳ تا ۱۵/اکتوبر ۱۹۹۱ء)
دار العلوم تاج المساجد کے زیر اہتمام اور مخلصانہ تعاون سے رابطہ ادب اسلامی کی ساتویں سالانہ علمی وادبی کانفرنس ۶،۵،۴ ربیع الثانی ۱۵،۱۴،۱۳/اکتوبر ۱۹۹۱ء کودعوتی واصلاحی ادب کے موضوع پر منعقد ہوئی، جس میں اردو میں ۲۹ اور عربی میں ۱۰ مقالے پیش کئے گئے۔
۱۳/اکتوبر کو ۱۰ بجے صبح رابطہ ادب اسلامی کے صدر مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے جلسہ کا افتتاح فرمایا، رابطہ عالم اسلامی کے نمائندہ شیخ محمد بن ناصر العبودی نے جو خاص اس مقصد کے لئے حجاز سے آئے تھے افتتاحی نشست میں تقریر کی۔ دار العلوم تاج المساجد کے قائم مقام امیر اور معتمد تعلیمات مولانا حبیب ریحان ندوی ازہریؒ نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا، مولانا سعید میاں مجددی اور دار العلوم تاج المساجد کے نائب مہتمم مولانا محمد لقمان خاں ندویؒ نے مہمانوں اور مندوبین کا شکریہ ادا کیا۔
افتتاحی نشست کے بعد، بعد نماز مغرب اور دن میں ۹ سے ۱۱پھر ۱۱:۳۰ سے ۱:۳۰ تک مقالات کی یہ نشستیں تین دن تک ہوتی رہیں، ان علمی مجلسوں کی صدارت مولانا عبد الرشید نعمانی (پاکستان) مولانا عبد اللہ عباس ندوی، پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی، مولانا سعید الرحمٰن اعظمی ندوی، پروفیسر محمد راشد ندوی نے کی، نظامت کے فرائض مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، مولانا عبد النور ندوی، ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی، سید ضیاء الحسن ندوی اور مولانا سید شرافت علی ندوی نے انجام دیے، ہر علمی مجلس کے اختتام پر سوال وجواب کا مفید سلسلہ بھی جاری رہا، رابطہ ادب اسلامی کےجنرل سکریٹری مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ان کے دست وبازو مولانا عبد النور ندوی کے علاوہ پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی اور مولانا عبد اللہ عباس ندوی نے ادب کے جمالیاتی اور نظریاتی پہلؤوں پر شرکاء بزم کے سوالوں کے جواب دئیے اور رابطہ ادب اسلامی کے قیام کے پسِ منظر،اسباب ومحرکات اور تاریخ پر روشنی ڈالی۔
اختتامی نشست کی صدارت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے فرمائی انہوں نے اپنی مؤثر اور طاقتور تقریر میں ادیبوں، دانشوروں اور اہل قلم سے توقع ظاہر کی کہ وہ نہ صرف اصلاح ادب کے قافلے کو آگے بڑھائیں گے بلکہ ادب کے نام پر جاری بے ادبی اور آمرانہ نقظۂ نظر کی حوصلہ شکنی بھی کریں گے۔
بھوپال میں مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی آمد کا فائدہ اٹھا کر اہل بھوپال نے ۱۲/اکتوبر کی شام کو پیام انسانیت کے جلسہ کا بھی اہتمام کیا تھا اس جلسہ سے مولاناؒ نے خطاب فرمایا۔
کانفرنس کے تمام شرکاء اور مندوبین نے دوران کانفرنس دار العلوم تاج المساجد کے نظم ونسق اور مہمان نوازی کو بہت سراہا۔
دار العلوم کی تعلیمی خدمات
دار العلوم تاج المساجد کو قائم ہوئے ۷۱ سال ہو رہے ہیں اس مدت میں دار العلوم نے جو خدمات انجام دیں اس کا مختصر تعارف اس طرح کرایا جا سکتا ہے۔
اب تک تقریباً ایک ہزار سے زیادہ طلباء اس دار العلوم سے فارغ ہو چکے ہیں اور دار العلوم ندوۃ العلماء ودیگر تعلیمی مراکز سے اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں،۱۹۸۶ء سے قبل دار العلوم میں ڈگری نہیں دی جاتی تھی بلکہ طلبہ ندوۃ العلماء یا دار العلوم دیوبند یا سہارنپور یا عرب ممالک جا کر اپنی تعلیم مکمل کیا کرتے تھے لیکن اب عالمیت کی ڈگری دار العلوم سے ہی دی جاتی ہے۔
اس وقت ہندوستان اور بیرونِ ہند شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں دار العلوم کے فارغ طلباءعلم ودین کی خدمت انجام نہ دے رہے ہوں اس طرح پندرہ سو سے زیادہ طلباء قرآن مجید حفظ کر کے نکل چکے ہیں، ان فارغ طلباء میں سے ایک اچھی تعداد ان کی بھی ہے جنہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں دینی مدارس اور حفظِ قرآن کے مراکز قائم کئے ہیں اور دل وجان سے خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔
دینی وثقافتی بیداری
دار العلوم تاج المساجد کے ذریعہ ۷۱ سالہ اس مدت میں جو دینی وثقافتی بیداری آئی اس کے اثرات پورے صوبۂ مدھیہ پردیش میں خاص طور پر شہر بھوپال میں ہر صاحبِ نظر کو دکھائی دیں گے، دار العلوم کے زیرِ نگرانی سالانہ تبلیغی اجتماع اس شہر میں ۱۹۴۸ء سے ۲۰۰۲ء تک بلا کسی تعطل کے ہوتا رہا ہے دار العلوم تاج المساجد اس عظیم اجتماع کو کامیاب اور ثمر آور کرنے کی ہر ممکن کوشش کیا کرتا تھا۔
یونیورسٹیوں اور تعلیمی اسلامی مراکز سے تعلق والحاق
دار العلوم تاج المساجد نے شروع سے ہی ہندوستان میں انسٹیٹیوٹس اور اسلامی مراکز سے اپنا رابطہ رکھا ہے، صوبۂ مدھیہ پردیش کے بہت سے متوسط مدارس کا الحاق دار العلوم سے ہے اور بہت سے دوسرے مدارس دار العلوم سے الحاق کے لئے کوشاں ہیں اور اس سلسلہ میں کارروائی جاری ہے۔
دار العلوم تاج المساجد کا دار العلوم ندوۃ العلماءسے تعلق ورشتہ روز اول سے ہے اسی طرح جامعہ ازہر سے بھی دار العلوم کے قدیمی تعلقات ہیں ، دار العلوم کے بانی حضرت مولانا محمد عمران خاں صاحب ندوی جامعہ ازہر کے فارغ تھے، دار العلوم کے بعض دوسرے اساتذہ بھی ازہر سے سند یافتہ ہیں،ہمارے طلباء بھی ازہر یونیورسٹی جاتے رہتے ہیں ،ازہر کی طرف سے دو اساتذہ دار العلوم میں تدریسی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں، پہلے مبعوث استاد محسوب ابراہیم النجّار تھےجنہوں نے دو سال تک دار العلوم میں تعلیمی خدمات انجام دیں دوسرے مبعوث استاد عبد الفتاح علی رزق تھے جو اس دار العلوم میں چار سال تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
علیگڑھ یونیورسٹی نے ہماری ڈگری کو “بی۔ اے”کے برابر تسلیم کر لیا ہے اور دینیات، اسلامیات، عربی اور طبِّ یونانی میں طلبہ یہاں کی ڈگری سے داخلہ پا سکتے ہیں۔
تبلیغ واجتماع
یہ بات واضح ہے کہ دینی علوم کی تعلیم وترویج بجائے خود تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ اسلام کا سب سے بڑا سبب ہے لیکن عملی وتبلیغی شکل کے پیشِ نظر ۱۹۴۸ء سے ۲۰۰۲ء تک سالانہ تبلیغی اجتماع اس مسجد میں ہوتا رہا ہے جس کے انتظام وانصرام کی مکمل ذمہ داری کا شرف دار العلوم کو حاصل ہے اور دار العلوم تاج المساجد کے طلبہ برابر تبلیغی اجتماعات میں شرکت کرتے اور جماعتوں میں نکلتے رہیں ہیں۔
حضرت مولانا محمد عمران خاں صاحب کی دعوت وتبلیغ سے وابستگی اور سرگرمی نے بہت سرعت سے بھوپال اور اس کے قرب وجوار کےعلاقوں جیسے امراؤتی، برار، اندور، اجین وغیرہ میں استحکام کے ساتھ اس کام کا ایسا پھیلاؤ کیا کہ ۱۹۴۸ء ۱۹۴۹ء تک دہلی اور میوات کے بعد بھوپال ہی اس کا سبب سے مضبوط قلعہ بن چکا تھا۔
مولانا الیاس صاحبؒ نے ۱۹۲۶ء میں دعوت وتبلیغ کا کام میوات سے بڑی سرگرمی کے ساتھ شروع کیا، دھیرے دھیرے اس کام کے تعارف کے بعد کچھ مشاہیر علماء بھی اس کام سے منسلک ہو گئے اس سلسلے میں ۱۹۴۰ء میں پہلی بار حضرت مولانا علی میاں صاحب کی مولانا الیاس صاحب سے ملاقات ہوئی اور مولانا علی میاں بڑی فعالیت کے ساتھ وابستہ ہوئے نیز اپنے حلقۂ احباب میں اس کی دعوت شروع کر دی۔
مولانا عمران خاں صاحبؒ کے تبلیغ سے تعلق کی ابتداء
مولانا محمد عمران خاں صاحب ندوی کو چونکہ مولانا علی میاں سے بڑا قلبی تعلق تھا اس لئے ان کی دعوت کو مولانا مرحوم نے بخوشی قبول کیا اور اس تحریک سے ایسے وابستہ ہوئے کہ لکھنؤ اور اطراف کے تمام اجتماعات اور نقل وحرکت میں شریک ہوتے، مولانا علی میاں تحریر فرماتے ہیں:”میوات کے اہم دوروں اور جلسوں میں شرکت کی بھی کوشش کرتے ان سفروں میں اکثر مولانا حافظ محمد عمران خاں صاحب ندوی مہتمم دار العلوم رفاقت فرماتے جس کی وجہ سے حضرت کو ان سے ربط ہوا اور انکو خود حضرت کی زیارت وصحبت اور اس دعوت وعمل سے بڑا نفع ہوا جس کا نقطۂ ارتقاء یہ تھا کہ وہ بھوپال میں اس دینی جدوجہد کے داعی اول اور وہاں کے اس تبلیغی اجتماع کا سبب بنے جو ہندوستان کا سب سے بڑا تبلیغی اجتماع بن گیا ہے“۔
مولانا محمد عمران خاں ندوی ازہری کا علمی مقام ندوہ سے فضیلت اور ازہر سے بحیثیت پہلے ہندوستانی کے فرسٹ ڈویزن اور فرسٹ پوزیشن میں تخصص کی ڈگری پھر ندوہ کے مہتمم ہونے کی وجہ سے تھاجب مولانا الیاس صاحب سے مراسم قائم ہو گئے تو انہوں نے مولانا عمران صاحب سے فرمایا کہ مولوی یوسف کو تبلیغ کی طرف متوجہ کرو اس لئے کہ وہ اس وقت اپنی علمی وتصنیفی مشغولیت کی وجہ سے اس طرف پوری طرح متوجہ نہیں تھے چنانچہ مولانا موصوف نے ان کو اس طرف راغب کرنے میں بڑا حصہ لیا جب وہ متوجہ ہو گئے تو پھر کیا تھا۔
بھوپال اجتماع کی خصوصیات
بھوپال کے اجتماع کی یہ خصوصیت ہے کہ بھوپال وسط ہند میں واقع ہے اس لئے ہر جگہ سے آنا جانا اور سفر کرنا آسان ہے یہاں کا موسم شمالی ہند کے مقابلہ میں ماہ دسمبر میں نسبتاً معتدل ہوتا ہے اور یہاں شرکاء کو تسلسل سے اجتماع ہونے کی وجہ سے وہ سہولتیں فراہم ہوتی ہیں جو ہندوستان کے کسی اور اجتماع میں بمشکل مہیا ہوں گی دار العلوم تاج المساجد بھوپال میں ہر تعمیر، ہر کام اور ہر منصوبہ سالانہ اجتماع کو دیکھتے ہوئے بنتا تھا اسی وجہ سے کم از کم سو عدد فلیش لیٹرین بنائے گئے جو اجتماع کے دنوں میں ہی کام آتے تھے، بورڈنگ کے کمرے تعطیل ہونے کی وجہ سے خالی ہو جاتے اور خاص طور پر جنوب مشرق ومغرب اور جنوب سے آنے والے مخصوص لوگوں کو دئیے جاتے تھے تاکہ انہیں تھوڑا سا آرام وراحت نصیب ہو اس وجہ سے فضلاء، تاجر پیشہ، علماء اور نئے لوگ بکثرت آتے کیوں کہ نئے آنے والوں پر مشقت بتدریج ہو تو اچھا ہے ورنہ وہ جلد کام سے برگشتہ ہو سکتے ہیں، یہ بات اطمینان ویقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اہم اور مخصوص لوگوں کی اس اجتماع میں سب سے زیادہ شرکت ہوتی تھی حالانکہ اب آنے والوں کی کثرت اور اژدہام کی وجہ سے گویا جگہ کم پڑنے لگی تھی لیکن پہلے اجتماع میں مشکل سے پانچ سو لوگ تھے، ۲۰۰۱ء میں جب تاج المساجد میں آخری اجتماع ہوا توکم از کم ڈیڑھ لاکھ لوگ شریک تھے، شروع کے اجتماعات میں کھانے کا نظم اکٹھا ہوتا تھا احباب فیس لے کر کھانا پکاتے اور شرکاء کو کھلاتے تھے نتیجتاً ناشتے اور کھانے میں ہی پانچ چھہ گھنٹے صرف ہو جاتے تھے اسی لئے بعد میں میدان میں ہوٹل لگانے کی اجازت دے دی گئی اس سے ذمہ داران تبلیغ اور منتظمین کو بہت سہولت ہو گئی اور وہ دوسرے اہم کاموں کے لئے اپنے آپ کو فارغ کر سکے پھر یہ طریقہ ہر جگہ استعمال ہونے لگا۔
بھوپال کا اجتماع اور اس کی برکات
بھوپال کے اجتماع کی بے پناہ برکات ہیں کیونکہ خدا کے ہزاروں لاکھوں بندے صرف خدا کے نام ونسبت پر دور دراز علاقوں سے اپنا خرچ کر کے مشقتیں برداشت کر کے یہاں آتے، خدا سے دعائیں کرتے اور اس شہر و ملک اور پورے عالم کی اصلاح کے لئے بے چین نظر آتے ہیں اس وجہ سے خدا کا خصوصی کرم اس شہر کے باسیوں پر ہے ذیل میں اس اجتماع کے انعقاد کے چند فوائد کا ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔ پہلے اجتماع کی برکت تو یہ ہوئی کہ بھوپال شہر اور سابق ریاست کے مسلمانوں کے اکھڑے قدم جم گئے، ترک وطن اور ہجرت کا ارادہ لوگوں نے چھوڑ دیا کیونکہ اس وقت یہ پروپیگنڈہ خاص طور پر دیہاتوں میں بہت زوروں پر تھا کہ ہندوستان کے تمام مسلمان ہجرت کر گئے اب ایک بھی مسلمان باقی نہیں بچا لیکن جب لوگوں نے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے پانچ سوآدمیوں کو دیکھا تو علاقہ اور شہر کے لوگوں کی ڈھارس بندھ گئی ان کے لڑکھڑاتے قدم جم گئے ورنہ شاید کوئی بھی یہاں نہ رہتا کیونکہ اہم لوگ ہجرت کر رہے تھے،ایسے میں مسجدوں قبرستانوں کا کیا ہوتا؟ اللہ تعالیٰ نے اس اجتماع کی برکت سے یہ بہت بڑا فائدہ لوگوں کو پہنچایا۔
۲۔ ریاست کے خاتمہ کے بعد اس اجتماع اور اس تحریک نے اس دینداری کی فضا کو قائم اور باقی رکھنے میں بڑا اہم رول ادا کیا جو بھوپال ریاست کی بڑی خوبی تھی اس عظیم الشان ریاست کا عقائد کی صفائی اور پاکی میں پورے بر صغیر میں غالباً ٹونک کے سوا کوئی ثانی نہیں تھا نہ یہاں بدعتیں تھیں نہ قبر پرستی تھی نہ علم دین سے بے خبری تھی، ریاست ختم ہونے کے بعد اس تحریک نے اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی بہترین کوشش کی۔
۳۔ تبلیغی اجتماعات کی برکت سے اس عظیم الشان مسجد کی تکمیل کا سامان خدا نے کیا کیونکہ تمام شرکاء جب اس عظیم الشان مسجد کی کسمپرسی کو دیکھتے تو کڑھتے اور خدا سے دعا کرتے پھر جب حضرت شاہ محمد یعقوب صاحب مجددیؒ کی توجہ سے مولانا مرحوم نے تکمیل کی مہم شروع کی تو سب سے زیادہ عملی تعاون اسی جماعت کے شرکاء،ہمدردان اور متعلقین نے کیا۔
۴۔ اس اجتماع کی برکت سے دار العلوم تاج المساجد کا تعارف پورے عالم میں بہت قلیل عرصہ میں ہو گیا عام طور پر برسوں میں کوئی یونیورسٹی یا ادارہ شہرت پاتا ہے لیکن اس دار العلوم نے اپنے ہمدرد اور بہی خواہ بہت جلد تلاش کر لئے جو دامے درمے سخنے ہر طرح دار العلوم کے ساتھ ہوئے اور ہر طرح کے تعاون میں پیش پیش رہے۔
۵۔ اس اجتماع کی وجہ سے حکام وارباب اقتدار کی نظر میں دار العلوم کی اہمیت بڑھی اجتماع اور دار العلوم کے سلسلہ میں دشواریوں پر خصوصی توجہ ملی اجتماع کے اینٹ کھیڑی منتقل ہونے کے بعد بھی الحمد للہ کوئی دقت وپریشانی نہیں ہوئی۔
۶۔ حکام اور غیر مسلموں کی نظر میں اجتماع کی وجہ سے یہ بات بھی بڑی اہم ہو جاتی ہے کہ تین دن تک پولیس کی مدد کے بغیر سارے کام پر امن طریقہ سے انجام پا جاتے ہیں، لڑائی جھگڑے اور چوری چکاری کا کوئی واقعہ پیش نہیں آتا ورنہ عام حالات میں تو پانچ دس ہزار کے مجمع کے لئے بھی پولیس کو نظم ونسق میں دشواری پیش آتی ہے